Monday, 28 November 2016

دوراہا‎


مدّتوں بعد ملنے والی خوشی نے لالی کے چہرے کو گلنار کر دیا ہے. آج لالی کے چہرے پر  شرم، خوشی اور .تشکر کے مارے سردیوں کے موسم کی گلابی صبح کی مانند لالی چھائی ہوئی ہے. جب سے اسنے خود میں یہ تبدیلی محسوس کی ہے اسنے بارہا یہ سوچا کے اپنی اس خوشی کو اپنے شوہر سے بتایے مگر فطری شرم اور جھجھک نے اسکو روک دیا. اسنے سوچا کی پتا نہیں وہ یہ خبر سن کر خوش ہونگے یا نہیں؟ اگر خوش نہیں ہوئے تو…؟ بھلا خوش کیوں نہ ہونگے…اتنے عرصے بعد تو ہمارے یہاں کسی خوشی نے .دستک دی ہے اور اسمے خوش نہ ہونے کا تو کوئی جواز ہی نہیں ہے.  وہ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ یہ خبر اپنے شوہر کو ابھی بتایے یا نہیں، تبھی اسے خیال آیا کہ  پہلے اسے ڈاکٹر سے مشورہ کر لینا چاہیے. پچھلے گزرے سانحے نے اسکے چہرے کی لالی کو معدوم سا کر دیا. اسنے ایک حتمی فیصلہ کیا کہ وہ  پہلے ڈاکر سے چیک اپ  کرواےگی  اور مثبت رپورٹ آنے کے بعد ہی اپنے شوہر کو اس بارے میں کچھ بھی بتائے . 
  لالی نےاس بارے میں  حتمی فیصلہ تو کر لیا مگر اسکے دماغ کے پردے پر 7 سال پہلے کی ساری کہانی فلم کی مانند چلنے لگی.تب لالی کی عمر   33  کے اس پاس تھی اور وہ تیسری بار حملہ تھی. ارون اور وہ دونوں بہت خوش تھے. حالانکہ دونوں نے کی بار اسس مسلے پر بات کیا تھا کہ  ہم پریوار چھوٹا ہی رکھیں گے مگر ارون کو بچوں سے بہت لگاؤ تھا. لالی نے ارون کے محبّت کو دو خوبصورت شاھکار کے پیکر میں ڈھال کر اسے تحفے میں دیا تھا دیپتی اور پرشانت کی شکل میں اور اس بار بھی لالی اپنی سیپ میں ارون کی محبّت کو پھر سے سینچ کر گوہر کرنے کو تیّار تھی.

وقت اپنی مخصوص رفتار سے رواں دواں تھا. لالی، جو کہ اب حاملہ تھی اسے گھر اور آفس کے کام وقت پر انجام دینے میں دشواریاں ہونے لگی تھیں. ابھی تو وو اپنے حمل کے چوتھے مہینے کے مراحل سے ہی گزر رہی تھی مگر جتنا بوجھ وہ اپنے کوکھ میں ڈھو رہی تھی اس سے کہیں زیادہ بوجھ اسکے ذہن پر تھا. دو چھوٹے بچوں کو سمبھالنا، اسکول، انکی پڑھائی، انکے کھانے پینے کا خیال اور اوپر سے شوہر اور آفس کے روز کے درجنوں کام. لالی بلکل گھن چکّر بن کر رہ گیی تھی. وقت کے ساتھ ساتھ لالی کی پریشانیاں اسکے پیٹ کی طرح بڑھتی جا رہی تھی اور کام کا بوجھ  اسکے پاؤں کی طرح بھاری ہوتے جا رہے تھے. اسی اثناء میں اسنے بمشکل دو مہینے اور کاٹے اور جیسے ہی حمل کا چٹھا مہینہ پورا ہوا اسنے پری-پریگنینسی کے تین مہینے کی چھٹی کی عرضی لگا دی. 

جیسے جیسے ڈلیوری کے دن قریب آ رہے تھے ارون کی محبّت بچوں کی مانند بڑھتی جا رہی تھی. ساتویں مہینے کے دوران ہیلالی کو تیز بخار رہنے لگا. شروع میں تو اس نے موسمی بخار سمجھ کر تال مٹول کیا مگر وقت کے ساتھ بخار کی شدّت بڑھتی گئی. لالی اب اس حالت میں نہیں تھی کی اکیلے ہسپتال جا سکے. ارون کے آفس میں بھی ان دنوں کچھ ضروری میٹنگز چل رہیں تھیں جس وجہ سے اسے چھٹی ملنی مشکل ہو رہی تھیں اور اسی چکّر  میں چند روز اور گزر گئے اور ادھر دن بہ دن لالی کی حالت بگڑتی جا رہی تھی. لالی کی حالت کو دیکھتے ہوئے ناچار اروں نے میڈیکل گراؤنڈ پر دیا کہ اپنی وائف کے لئے چھٹی کی عرضی دے دی. جب لالی ہسپتال میں داخل ہوئی تو اسکی حالت بدتر ہو چکی تھی. چیک اپ کے بعد ڈاکٹرز نے جواب    دے دیا کہ  اگر ابورشن نہیں کیا گیا تو  ماں اور بچے دونوں کو خطرہ ہو سکتا ہے اور یوں لالی کو اپنا حمل ساقط کرنا پڑا.  

یہ سانحہ لالی کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں تھا. ارونتو خیر مرد تھا مگر لالی کے کے لئے تو اسے بھولنا بہت ہی مشکل تھا. وقت کے ساتھ ارون تو اس غم کو بھول گیا مگر لالی....لالی کیسے بھول جاتی. اپنے وجود کے حصّے کو فراموش کر پانا اتنا آسان نہیں ہوتا؟ وہ بھی اس وجود کو جسے سات مہینے تک پروش کی اور اسکی شکل تک نہیں دیکھی. اس ان دیکھےعذاب کا قرب تو بس ایک ماں ہی جان سکتی ہے. لالی وقت کے ساتھ اپنے اس دکھ کو اپنے وجود میں گھولتی چلی گیی. اب وو پہلے کی طرح ہنستی مسکراتی، شوخی اچھالنے والی لالی نہیں تھی. قدرت کے اس عجیب کھیل نے اسکے ہونٹھوں سے اسکی پھول سے ہنسی چھین لی تھی. لالی بھی ارون کے چھوٹے سے پریوار کے راے سے متفق تھی مگر جب سے اسکا حمل ساقط ہوا تھا تب سے ارون بھی کچھ بجھا بجھا سے رہنے رہنے لگا تھا. کچھ تو آفس میں ملنے والی ترقی اور اس سے بڑھی  ذمےداری تھی تو کچھ اس اولاد کی محرومی کا دکھ تھا. ارون کے دکھ کا سوچ سوچ کر لالی اور دکھی رہنے لگی تھی. آفس کا کام کرتے وقت بھی لالی کا دھیان ارون پر ہی لگا رہتا. اس دوہرے سوچ اور ذہنی دباؤ نے اسکی صحت پر مضر اثر ڈالا اور وو چپ چاپ اپنی گرتی صحت کو سمبھالتی رہی، اس بارے میں ایک بار بھی اس نے  ارون سے ذکر تک نہیں کیا. ارون بھی شاید اب اس سے کچھ لاپرواہ سا رہنے لگا تھا. لالی کے شب و روز درد اور اضطراب میں گزرنے لگے. اسے یوں لگتا جیسے حمل ساقط اسی کی وجہ سے ہوا ہے اور وہی اسکی واحد ذمےدار ہے. لالی استقاط حمل کے لئے خود کو ہی گنہگار سمجھنے لگی اور اسکی سب سے بڑی وجہ تھی دوبارہ ماں بننے میں ہونے والی مشکلات .گزرتے وقتوں میں لالی نے ارون کو پھر سے بچے کے لئے منایا اور کئی کوششوں کے باوجود بھی لالی کو حمل نہیں ٹھہر پا رہا تھا. ادھر لالی خود پریشان تھی اور اسکی بار بار کی ڈیمانڈ پر ارون الگ جھنجھلا جاتا. دوران تنہائی لالی کو کی بار جھڑک بھی دیتا کی جب تم ماں بن ہی نہیں سکتی تو میری اتنی محنتوں اور کوششوں کا کیا فایدہ؟ لیکن لالی اپنا مان، اپنی آنا سب کچھ تج کر اس سے منّت سماجت کرتی کی ایک بار اور کوشش کر لینے میں کیا برائی ہے؟ اور یوں لالی کو اپنی آنا، اپنی روح زخمی کرتے اور ارون کی جھڑکیاں سنتے سنتے سات سال کا طویل عرصہ گزر گیا اور آخر کار خدا نے اسکی خاموش آنسوں کی لاج رکھ لی اور اسکی کوکھ چوتھی بار آباد ہو گی.

صبح جب سے اسے خود کے حاملہ ہونے کا یقین ہوا تب سے وو بےتحاشہ خوش ہے. اسکے چہرے پر خوشیوں کی دھنک سی بکھری ہوئی ہے. لالی نے گھڑی کی طرف دیکھا، ڈھائی بجنے کو تھے، اسنے آفس سے آدھے دن کی چھٹی لی اور اور سیدھے ہسپتال کے لئے نکل گی. گھنٹے بھر بعد جب اسکا نمبر آیا تو ڈاکٹر الکا نے بڑی گرمجوشی سے اسکا استقبال کیا اور پھر اسکے آنے کا سبب پوچھا. 40 سالہ لالی نے نگاہ نیچے کے، شرماتے ہوئے اپنے حاملہ ہونے کی بات  بتائی تو بیساختہ ڈاکٹر الکا نے اسے گلے سے لگا لیا اور ڈھیروں مبارکباد دے ڈالیں. انہوں نے کچھ ضروریٹیسٹس  .کروائیں اور مثبت رپورٹ آنے پر دوبارہ مبارکباد دیتے ہوئے لالی کو رخصت کیا 

اب لالی بیحد خوش تھی. ایک ہاتھ میں میڈیکل رپورٹس تھامے، دوسرے ہاتھ سے اسنے اپنے ہینڈ بیگ سے موبائل نکالا اور ارون کو کال کر اسے بھی مبارکباد دی. حالانکہ دوسری طرف سے کسی گرمجوشی کا اظہر تک نہیں ہوا. لالی بجھ سی گئی. اسنے پاس سے گزر رہے آٹو کو روکا،ایڈریس بتایا، ہاتھ میں پکڑے ہوے سامان کو ایک طرف رکھا  اور اپنا تھکا، بکھرا ہوا وجود سیٹ پر ڈال دیا. اسے ارون سے ایسے توقع کی امید قطعی نہیں تھی. جتنی تیزی سے آٹو سڑک پر بھاگ رہا تھا اتنی ہی تیزی سے لالی کے دماغ پر کالج کے زمانے کے سین چلنے لگے. 

لالی یانی لالیما شریواستو ارون سنہا سے پہلی بار دہلی یونیورسٹی میں ملی تھی. دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے. دوستی نے کب دبے پاؤں دونوں کے دلوں میں دستک جمائ، انہیں خبر تک نہیں ہی. وقت موسموں کے دوش پر سوار اپنا سفر طے کرتا رہا. ایک دن جب لالیما کنیر کے پیڑ کے تنے سے ٹیک لگاے اپنے نوٹس مکمل کر رہی تھی تبھی وہاں ارون آ پہونچا. اسنے گھاس پر بیٹھتے ہوئے لالیما سے پوچھا -'کیا تم میری زندگی کیو ہمسفر بنوگی؟' لالیما ایسے سوال کے لئے تو قطعی تیار نہیں تھی، ایسا نہیں تھا کہ اسکے دل میں ارون کے پیار کی انکور نہیں پھوٹی تھی لیکن ابھی وہ  کسی کو  بھی اپنی محبّت کے جذبے سے آشکار نہیں کرنا چاہتی تھی. ابھی تو اسکی پڑھائی بھی مکمّل نہیں ہوئی تھی، ابھی تو اسنے اپنے سپنوں میں ہزاروں رنگوں کو بھرنا تھا. مگر ارون کے سوال نے اسے سوچوں میں گم کر دیا.
'کیا سوچنے لگیں؟ کیا تمھیں زندگی کے سفر میں میرا ہمسفر بننا پسند نہیں؟؛
'نہیں....ایسا نہیں ہے...ابھی تو...'
'دیکھو، کوئی زبردستی نہیں ہے، اگرتمہارا دل میرے ساتھ پر آمادہ نہیں تو تمھیں انکار کا پورا اختیار حاصل ہے'
'ایسی بات نہیں ہے ارون، مجھے سوچنے کا کچھ وقت تو دو'

لالیما نے یوں تو سوچنے کے لئے وقت مانگ لیا تھا مگر وہ دل ہی دل میں زندگی بھر ارون جیسے ساتھی کے ساتھ کا سوچ کر خوش تھی. لالیما تو خود بھی ارون کو چاہتی تھی مگر اسکی یہ چاہت اسکی زباں پر کبھی سوال یا اظہار بن کر نہیں آیا تھا مگر جب اسکی چاہت سامنے دست سوال بن کر سامنے آیا تو پہلے تو اسے اپنی چاہت پر ہی یقین نہیں آیا. جواب دینے کا وقت تو لالیما نے محض اس لئے مانگا تھا کہ وو اپنی بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کو ارون کی چاہت کے ساز پر ترتیب دے سکے اور اپنی سوچوں کے خاکے کو ارون کی چاہت کے رنگوں میں رنگ سکے. 3 دن بعد ہی لالیما نے ارون کو اپنی رضامندی دے دی. کالج کے آخری چھہ مہینے ہی بچے تھے اب اور طے یہ پایا کی امتحان کے بعد ہی دونوں شادی کے پاکیزہ بندھن میں بندھ جاینگے. لالیما اور ارون دونوں کو اپنی محبّت پر بہت فخر تھا کیوںکہ انہیں زمانے  اور اپنے اپنے گھرانوں کی مخالفت کا بلکل بھی سامنا نہیں کرنا پڑا اور انکی منگنی بہت ہی دھوم دھام سے ہو گیی. وقت بھلا کب کسی کے لئے رکتا ہے جو لالیما اور ارون کا انتظار کرتا. وقت ان دونوں کی مٹھی سے بھی پھسلتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے امتحان کے موسم قریب آ گئے.    

امتحان کے موسم گزرتے ہی لالیما اور ارون پاکیزہ بندھن میں بندھ گئے. اور اسطرح لالیما اپنی زندگی کا ایک حصّہ، جو اسنے بچپن سے لیکر جوانی تک ماں-باپ کی دہلیز پر جیا اسے چھوڑ ارون کے گھر آ گیی. اپ اسکے سپنوں کے رنگوں کا مرکز صرف اور صرف ارون تھا. امتحان کے نتیجے آتے ہی ارون کو ایک پرائیویٹ فرم میں مینیجر کی نوکری بھی مل گئی اور یوں انکی گاڑی زندگی کے سفر پر نکل پڑی. لالیما کے زندگی میں قدرت نے بیشمار پھول کھلا دے اور ادھر ارون کی والہانہ محبّت نے اسکی کھوکھ آباد کر دی. اگلے ہی سال لالیما نے دیپتی کی شکل میں اپنی گلشن میں ایک نیا پھول کھلا دیا. ابھی دیپتی صرف دو ہی سال کی تھی کہ لالیما ایک بار پھر اپنی کوکھ میں ارون کے محبّت کے بیج کو سینچ رہی رہی تھی...اور اس NGOبار پرشانت نے آکر جیسے انکے پریوار کو مکمل کر دیا تھا. دوسرے بچے کے بعد اسنے بھی سوشل ورک کرنے والی ایک 
 میں نوکری کر لی  شروع میں تھوڑی پریشانی ہوئی مگر بعد میں اسکے گھر اور نوکری کے بیچ توازن بنانا سیکھ لیا اور وہ دھیرے دھیرے اس کام میں ماہر ہو گیی.

آٹو کے اچانک رکنے پر اسکی سوچوں کا سلسلہ رکا. اسنے اپنی سوچوں پر کچھ پل کا پہرا لگایا اور آٹو کو بایئں طرف دوسری لیں میں مڑنے کا کہ کر پیسے نکالنے لگی. کرایا ادا کر کے اسنے گھر میں قدم رکھا اور فرج سے ٹھنڈا پانی نکل کر گٹا گٹ کئی گھونٹ پی گی. جب ہوس کچھ قابو میں آے تو اسنے اپنی سوچوں کو پھر سے یکجا کیا. اور وہیں اٹک گیی جب سات سال پہلے وہ ارون کے ایک اور پھول کو سینچ رہی تھی مگر وہ وقت سے پہلے ہی مرجھا گیا. پرانی کسک کے درد کی ٹیس پھر سے ہوک بن کر دل کو ستانے لگی مگر تبھی ڈاکٹر الکا کی نصیحت اسے یاد آ گیی اور بیساختہ اسکے لبوں پر ایک بھرپور ہنسی تیر گئی. لالی کچن کی طرف مڈ گیی اور چولہے چائے کا پانی چڑھا کر ارون کے رویے کے بارے میں سوچنے لگی مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی.   

رات میں ارون جب گھر واپس آیا تو اسنے اپنے حاملہ  ہونے کی بات دوبارہ ارون کو سنی مگر اس بار بھی ارون کا انداز سرد ہی رہا. اسنے ہمّت کر کے پوچھا 'تمھیں خوشی نہیں ہوئی؟'
'نہیں'. لہجہ سپاٹ اور برف کی طرح سرد تھا. 
کیوں؟ '
'کیونکہ اب مجھے بچوں کی خواہش نہیں رہی'
'مگر تمھیں بچے تو بہت پسند ہیں'
'ہیں نہیں...تھے'
'تمہاری عمر اب 40 کی ہو چکی ہے، دیپتی اپ  دسویں میں ہے اور پرشانت آٹھویں میں، ہمیں انکے خرچے، انکے مستقبل کا سوچنا ہے'
'مگر...کماتے تو ہم دونوں ہی ہیں، تو خرچے کی تو کوئی مشکل نہیں ہوگی'
'تم کیا سمجھتی ہو، تمہارے چند ہزار سے ہی یہ سارے خرچے پورے ہوتے ہیں؟'
'میری مانو تو تم ابورشن کرا لو'-  لالی کا دل ارون کے لہجے کی وجہ سے کٹ کر رہ گیا اور وو اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر چلی گیی اور اس کے بعد ان دونوں میں دوریاں  اتنی بڑھ گیئں کہ ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی دونوں صرف ضرورت کے وقت ہی بات کرتے. لالی کی گود کئی راتوں کو خاموشی سے آنسو بہانے اور ہزاروں منتوں کے بعد ہری ہوئی تھی اور ارون نے کتنی بیدردی سے حمل گرانے کی صلاح دے دی. اف! 

.لالی اپنے حمل کے آخری دور میں تھی جب اسنے اپنے سینے میں درد کی شکایات ڈاکٹر الکا کو بتائی 
'اس حالت میں سینے میں درد؟ ڈاکٹر الکا نے تشویش سے کہا'
'کیوں...کوئی پریشانی والی بات؟؛
'جبتک میں ٹیسٹ نہیں کرا لیتی کچھ بھی یقین سے نہیں کہ سکتی ویسے میرا شک بریسٹ کینسر کی طرف ہے'

بریسٹ کینسر کا نام سنتے ہی لالیما کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا، اورٹیسٹس نے بھی ڈاکٹر الکا کے شک پر یقین کی مہر لگا دی. ڈلیوری میں اب صرف چند ہفتے باقی تھے...اور ایسے میں بریسٹ کینسر.....لالی ا س سے آگے کچھ بھی سوچ سکنے سے قاصر تھی. گزرتے وقت کے ساتھ درد کی شدّت بڑھتی جا رہی تھی. یہ بیماری پرانی تھی جو اب جڑ جما چکی تھی. لالی کی گرتی صحت کا بھی یہی راز تھا، مگر وہ  اپنے صحت کا خیال چھوڑ ارون کی خواہش کو پورا کرنے کے فراق میں گھل رہی تھی...اور جب وہ اسکی خواہش پوری کرنے کے عنقریب تھی تو وہی ارون لالی کے فیصلے کے خلاف تھا اور اوپر سے قدرت کی ستم ظریفی کہ وہ ایک لگبھگ لا علاج مرج میں مبتلا تھی. اگر اسکی زندگی کا ہمسفر اسکا ساتھ دیتا یا بیماری کا پہلے پتا چلتا تو وہ اس درد کو بھی ارون کی بےرخی کی طرح برداشت کر لیتی.

'ڈلیوری کے بعد تمہارے بریسٹ کا آپریشن کرنا پڑیگا' ڈاکٹر الکا نے اسے آگاہ کیا
'کیوں؟؛
'کیونکہ یہ کینسر اپنی آخری منزل کو پہنچ چکا ہے، تم اپنے بچے کو اپنا دودھ بھی نہیں پلا سکتی کیونکہ دودھ بھی اب زہر بن چکا ہے. اور اگر اب بھی تمہارا آپریشن نہیں ہوا اور بریسٹ کاٹ کر الگ نہیں کیا گیا تو ڈر ہے کہ کہیں یہ مرض دھیرے دھیرے پورے جسم میں نہ پھیل جائے.
'پرسوں تمہاری ڈلیوری ہے اور اسکے دو دن بعد تمہارا آپریشن' ڈاکٹر الکا کے اس بات کا لالی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، وہ گردن موڑ خاموشی سے اپنی بےبسی پر آنسو بہانے لگی.

آپریشن کے ہفتے دن بعد جب لالی اپنے گھر واپس آئ تو ارون نے کہا اب یہاں کیوں آئ ہو؟
'مطلب؟' 
'مطلب کہ میرے گھر میں ''ادھوری عورت'' کے لئے کوئی جگہ نہیں'
'ادھوری عورت....؟
'ہاں....آپریشن کے بعد تو تم عورت کے پہچان سے ہی محروم ہو چکی ہو، تم اب بھی عورت ہو مگر مکمل نہیں...ادھوری عورت ہو ....اور میری زندگی میں ادھوری عورت کے لئے کوئی جگہ نہیں'

'لیکن یہ گھر صرف تمہارا ہی تو نہیں، میرا بھی ہے، ہمارے بچوں کا ہے'
'بلکل ہے' مگر تمہارے لئے نہیں....
'کیوں....'
'کیونکہ ایک مرد ایک بھرپور اور مکمل عورت کی اغوش میں سکوں پاتا ہے....اور جب تم خود ہی ادھوری ہو تو مجھے مکمّل تسکین اور سکوں کیسے دے سکتی ہو؟...تم اپنے لئے کوئی اور جگہ ڈھونڈھ لو. میں جلد ہی تمھیں طلاق کے کاغذ بھجوا دونگا.

لالی کو اپنے کانوں میں پگھلتا شیشہ سا محسوس ہوا. اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جسنے بہت چاؤ سے اسکا ہاتھ مانگا تھا، اسے اپنی زندگی کا ہمسفر بنایا تھا....مگر آج....اس سے آگے وہ کچھ سوچ ہی نہیں پائی. 

میری نسوانیت اتنی گری ہی نہیں ہے جو تم جیسے چند مردوں کی غلیظ سوچ کی  وجہ سے مجروح ہو جائے. عورت کا عورتپین اسکے بریسٹ میں نہیں اسکے جذبے، اسکے وقار، اسکی سوچ اور اسکے عزم میں ہوتا ہے. میں نے تمھیں پہچاننے اور سمجھنے میں غلطی کی جسکی سزا مجھے ملی، شاید قدرت مجھے اسی طرح تم سے آزاد کرانا چاہتی ہو، پہلے تو میں قدرت کی ستم ظریفی پر اسے کوستی رہی مگر میں اب تھوکتی  ہوں تم پرکہ میں نے تمہارے جیسے گھٹیا انسان کو اپنی زندگی کا ہمسفر چنا جسنے بیچ سفر میں میرا ساتھ چھوڑا. اگر قدرت تمہارے ساتھ کچھ برا کرتی تو کیا میں  تمہارے ادھورےپن  کا  آڑ لیکر تمہارا ساتھ چھوڑ دیتی؟، ہرگز نہیں کیونکہ میری سوچ تمہاری طرح گندی نہیں ہے. اور میں تھوکتی ہوں تمہارے طلاق کے اپر بھی. کاغذ کے چند ٹکڑے میری تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکتے. میں آج اور ابھی تمہارے گھر، تمہاری سوچ اور تمہارے گندے وجود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا رہی ہوں.

لالی نے واپس جاتے ہوئے ارون کو آخری بار پلٹ کر دیکھا اور کہا، تم یہ غلطفہمی اپنے دل سے نکال دو کی عورت کی زندگی ایک 'دوراہا' ہے، ایک راستہ ماییکے تو دوسرا سسرال کو جاتا ہے. عورت کی زندگی میں صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے عزت، وقار اور خودمختاری کا اور آج سے میں اسی راستے کی ہمسفر ہوں.

الوداع 
نیّر امام -

Monday, 3 October 2016

How to overcome from weakness after viral fever?


Fever is due to attack of bacteria on our immune system. In fever our body temperature gets high which is called hyperthemia. This high temperature reduces our body efficiency, which result in tiredness. To be away from such tiredness, you should take full nutrition especially in liquid form like juice, lemon water. Vitamin D and capsules of glucose should be taken.  Fever is occurring while attack of any pathogen. Doctors mainly prescribe antibiotics. These antibiotic or injection will react suddenly to infected pathogens. Then our immune system will become weak. It may take time to overcome, but good diet and good mental health will help to reduce the tiredness. Mostly in fever doctors prescribe antipyretics and antibiotics to kill the infection. These antibiotics are quite strong and lead to weakness.  Taking one Becasule capsule daily till the time you are taking antibiotic would help a lot in overcoming the weakness. But before taking the above please consult your doctor because self medication can be dangerous. Because of dehydration of water content in the body and tablet overdose causes this effect of getting tired too often. To overcome tiredness you can have lots of liquid food like water and different juices in between, have lassi, buttermilk and tender coconut which contains high potassium and mineral content has the power to fight against stress.

Tiredness after fever is common. It is due to the fact that when pyrogens (fever producing agents) attack our body, the body's immune system and leucocytes (white blood cells) fight against them. As a result a lot of body cells are lost leading to weakness. Fresh fruits like oranges, 'mausami', apple, pomegranate, bananas and even fresh limes are body revitalizers. Oral Glucose should be given(unless the patient has diabetes). As the patient can't have solid food, milk and milk products like curd and buttermilk should be given. Try to have Glucose water and tender coconut along with some fruits, and do not forget to have little bit dry fruits/nuts. Since you have losen energy more than individual capacity in certain age, it will obviously feel tire plus recently you have might have taken anti-biotics tablet for past sick.

Try to avoid english medicine in normal fever and use ayurvedic or homyopathic medicines. The english medicine in fever is generaly of antibiotic type which are strong and also lead to tiredness. Nothing to worry, naturally it will take few days to recover from it. Patient should be taken out in fresh environment as nature is also a healer. Avoid talks on patient's ill health with him. Tiredness after fever is due to the effects of increased BMR i.e. Basal Metabolic Rate. BMR is raised due to increased temperature of the body and increased ATP depletion at cellular level. When fever leaves you start feeling the sweat and causes tiredness. Take bath and little tiredness do get reduced. 

Capacity of physical exhaustion and tiring of body depends on growing age too. If you are getting tired at young age, it needs to be taken care of. I would advise you to take Kalonji oil with honey in morning time, half an hour before breakfast. This works for all ages. Also if you feel weakness in general you can take multivitamins also. Try to get fresh air, go for small walk near the place.

Top of Form
Remedy for body pain, body weakness, cough & fever:

Body pain along with fatigue can occur due to the presence of certain viruses. Sometimes body pain can also occur due to depression, worry or stress. Fatigue and body pain may continue even after the person is recovered from cough, cold and fever. This is due to the response of our immune system to the illness. Thus certain guidelines that can be useful for reducing body pain are:
  1. Have a balanced meal so that the body can get energy to alleviate the pain. Have all the nutrients properly without missing out any one of the nutrients. Have all types of food consisting of cereals, pulses, fruits and vegetables.
  2. Avoid postures that can cause the pain as well as fatigue. Avoid bending for longer period of time; work area should be at the level which is comfortable for you without too much of stooping or stretching.
  3. Take adequate rest. Place hot water bag on the area where there is body pain.
  4. Consult the doctor if the pain is still present and is unbearable.
Body weakness can be considered as a symptom rather than a condition. Weakness can be muscular weakness of a body part or general weakness of the entire body. Weakness can occur due to fatigue, fever, virus, blood loss, heart attack, certain conditions like pregnancy and lactation, anemia, stressful lifestyle, over exertion and hypothyroidism. Any type of weakness is dangerous and requires instant advice from the doctor. 
Certain guidelines that can be useful for weakness are:-
  1. Adequate rest is essential especially if the person is recovering from fever or viral infection in order to avoid relapse.
  2. Your body should receive regular meals so that the body can become strong and healthy. Have ample amount of water to avoid dehydration which can also lead to weakness. Heavy breakfast with good quantity of cereals, milk and fruits are necessary. Take your lunch regularly. Have salads and sprouts with the meals that can provide variety and bulk to the diet. Drink water or fruit juices to quench your thirst. Have dinner 2 hours before going to bed so that the food is properly digested. Have frequent meals so that the body is not starved or left hungry for longer period of time.
Fever can occur due to viral infection and may also be accompanied by other diseases. If there is continuous fever for longer period of time it is essential to check the temperature of the body regularly. Cough is a forceful liberation of air from the lungs. It is considered as dangerous if it is accompanied with fever, infection, chest pain and blood. There are certain remedies that can provide relief from fever and cough.
  1. Add turmeric powder and black pepper powder to a glass of hot milk. This can provide relief from fever and cough.
  2. Mix honey and lemon grass juice in equal amounts to reduce cough.
  3. Drink a lot of warm water and fluids to break the fever. Avoid too much of protein foods
  4. Blanch thyme leaves in water and inhale the steam that is formed to reduce the cough.
  5. Avoid exposure to sun, over exertion and cold.

Generally, weakness can be defined as extreme lack of energy or feeling lethargic or tired. Weakness makes you so sluggish and drowsy that it becomes difficult for you to carry out your daily activities. Some other symptoms of weakness involve loss of appetite, excessive sweating, difficulty in falling asleep and lack of concentration.
There can be a number of reasons for weakness such as lack of essential nutrients, a weak immune system, incomplete sleep, excessive intake of alcohol, smoking, emotional stress, skipping meals, and too much physical labor and drastic change in lifestyle.
Here are some simple home remedies that can make you feel more energetic and rejuvenated.
Home Remedies for Weakness:

1. Bananas
Bananas contain natural sugars like glucose, sucrose and fructose that give you a quick energy boost up. Bananas have high amount of potassium that converts sugar into energy. Whenever you feel weak, eat one or two bananas. You can also try banana shake or smoothie.
2. Milk
Milk is a rich source of vitamin B that reduces weakness. It is also a good source of calcium that keeps your bones strong. Whenever you feel lethargic, drink a cup of warm milk with one teaspoon of honey in it. Alternatively, you can also add 1 teaspoon of licorice powder in warm milk. Drink it two times in a day.
Note – Consult your doctor before taking licorice, on a regular basis, as it may increase blood pressure in some people.

3. Strawberries
Intake in form of juice, or eat plain or combine with other fruits, strawberries provide you with huge energetic. It enhances immunity and repair tissues of the body.
4. Almonds
Almonds are packed with vitamin E and magnesium that makes you feel energetic. These dried fruits convert fat, protein, and carbohydrate into energy. Every day soak 2 almonds in water overnight. In the morning, remove the skin of almonds, and eat them. You can also eat roasted almonds, whenever you feel fatigued.
§  A handful of nuts like walnuts, raisins, etc., are rich sources of omega-3 fatty acids and release energy quickly. Natural sugar in these nuts keeps you going for the whole day.
§  Eat 4-5 dates every day, in order to reload the lost energy.

5. Indian Gooseberry
Indian gooseberry is a nutritious fruit that improves the energy level. It is a very good source of vitamin C, protein, irons, calcium, carbohydrates, and phosphorous. It strengthens your immune system. It is recommended to eat one Indian gooseberry daily. You can also grind them in a juicer and take them with honey.
6. Coconut Oil
Coconut oil has been used in making food and medicines for centuries, around the globe. It is easy to digest, boosts up metabolism, and increases energy as well. Coconut oil stimulates the thyroid gland and balances hormones. You can use coconut oil for daily preparation of your food.

7. Acupressure
It is a touch therapy that uses pressure on some specific body points for reviving the body. Putting pressure on the points between the eye brows, shoulder muscle 1-2 inches from the side of the lower neck, below the kneecap, on the outer part of the chest, three finger widths below the belly button, etc., can relieve general weakness.
8. Oats
Oats are the great components to boost up the energy. It is loaded with carbohydrates and fiber that help prevent hunger cramps. Magnesium and phosphorus in oats have the ability to put off fatigue and tiredness.
9. Garlic
Garlic has astringent and anti-inflammatory properties that repair weak immune system.  One can consume raw garlic clove on daily basis.
10. Warm up and Exercise
Regular exercise and simple physical activities strengthen your stamina and increase your muscle strength. Morning time is the best for exercise. Daily warm up and stretching for 15 minutes will keep you fresh and energetic. Yoga and meditation are also a great way to keep your energy levels high.
11. Water
Dehydration can lead to tiredness, so drink plenty of water, juice, milk, or other liquid beverages, in order to stay hydrated. Vitamin A, C, and B1 in fruit juices energize you.
§  Prepare a drink of glucose powder and a pinch of salt in water. Add lemon juice for taste. Drink this as often as required.
§  A blend of tomato and apple juice can prevent weakness.
§  Carrot juice is also a good energy booster.

12. Yogurt
Protein present in yogurt releases energy, and natural sugar boosts your energy levels. It makes you feel fuller for long time, and also gives you a boost of instant energy.
Note – If you are suffering from cold or some throat infection, you should avoid intake of yogurt.

13. Mangoes
Since this juicy fruit is a good source of antioxidants, minerals, vitamins and dietary fiber, it assures optimal health. The iron contents enable one to overcome anemia. Starch in mangoes provides instant energy when it gets transformed into sugar.
§  Sprinkle rose water, cardamom, a pinch of saffron and honey on mango slices and have them.

14. Coffee
Consumption of coffee in moderate amount keeps you active and energetic all through the day. It accelerates endurance and improves the rate of metabolism.
Note – Intake of more than 2 cups of coffee, in a day, increases the risk of insomnia and anxiety.

15. Eggs
Eggs are enriched in riboflavin, folic acid, vitamin A, iron and protein. Having eggs in breakfast is a perfect start of a healthy day. You can include egg sandwich, green vegetables, omelette with cheese or boiled egg in your regular diet.
16. Sprouts
Consumption of sprouts provides the needed amount of protein and energy to your body.
Herbal Remedies for Weakness:

17. Herbal Tea
A soothing cup of herbal tea provides you with extra nutrients and taste. Herbal tea made from holy basil, honey and lemon juice can effectively minimize the symptoms of weakness. Simply boil 10 leaves of holy basil in a cup of water. Let it boil for a few minutes, then, strain. Add lemon and honey for flavor.
18. Withania Somnifera (Ashwagandha)
It is an anti-inflammatory agent that enhances immune system and prevents occurrence of fatigue by nourishing brain cells. You can take 3-4 grams of ashwagandha per day. Alternatively, mix its powder in warm milk and drink it.
19. Ginseng
Ginseng is a powerful antioxidant that gives you energy whenever you feel exhausted. This herb has been known for centuries. Its soothing and calm nature will relieve your nerves instantly. Cut thin slices of ginseng root. Then, boil 8 to 10 slices in 3 cups of water, for 15 minutes on medium heat. Strain the solution, add a little honey and allow it to cool. Drink one to three cups of ginseng tea daily.
Note – This remedy is not recommended for people suffering from high blood pressure.

20. Gingko Biloba 
It is the best herbal remedy that cures fatigue, tiredness, low energy and weakness. It also improves blood circulation and revitalizes your body.
§  You can add Ginkgo biloba powder to yogurt, smoothies, or can combine it with any other super foods, for better results.
Note – If you are on some other medication, consult a doctor before taking this.

21. Ginger
Mix equal quantity of ginger juice and lime juice. Add 1 gram of rock salt to it. Put this solution in sunlight for 3 days. Take 1 teaspoon everyday to improve the appetite and overcome weakness.
Do’s
§  Sleep for at least 6-8 hours.
§  Take a break from daily routine, if feeling very weak.
§  Eat the right amount of food.
§  A warm shower before going to bed or after work can make you feel relaxed and refreshed.
Don’ts
§  Breakfast is the most important meal of the day, so never skip it.
§  Avoid cigarette smoking, caffeine, alcohol and tobacco and illegal drugs.
§  Avoid exposure to sun and hot surroundings.

***
GET WELL SOON !
~

-          Khurr@m.  

Wednesday, 28 September 2016

क्या शहादत की आड़ में सेना की जवाबदेही तय नहीं होगी?

18 सितम्बर 2016 को उत्तरी कश्मीर के 'उड़ी' में भारतीय सेना के एक कैम्प पर हुई आतंकी घटना पिछले डेढ़ दशक में सेना पर हुई सबसे बड़ी आतंकी कार्रवाई है, जिसमें 18 सैनिक शहीद हुए. इससे पहले कश्मीर के कालूचक में 14 मई 2002 को हुए आतंकी हमले में सेना के 22 जवान शहीद हुए थे. सेना पर हुए इन दोनों बड़े हमलों के वक़्त केंद्र में NDA की सरकार रही है, जिसका रुख यूं तो आतंकवाद को लेकर तो 'बहुत कठोर' है मगर हमले की कड़ी निंदा करने, पाकिस्तान पर आरोप लगाने और उसे सबूत सौंपने के अलावा इस सरकार ने कुछ ख़ास नहीं किया है.
केंद्र की NDA सरकार ने हद तो तब कर दी, जब इस साल की शुरुआत में ‘पठानकोट एयरबेस’ पर हुए आतंकी हमले (जिसमें 7 जवान शहीद हुए) की जांच के लिए पाकिस्तान की JIT को आमंत्रित किया और उसने इस हमले में अपने हाथ होने के सबूतों से इंकार करते हुए इसका ठीकरा भारत के सिर फोड़ विश्व स्तर पर भारत की किरकिरी कर दी.

एक रिपोर्ट के मुताबिक़ सिर्फ़ 2016 में अब तक 35 जवान शहीद हो चुके हैं और केंद्रीय विदेश मंत्री सुषमा स्वराज के फार्मूले के तहत तो अब तक भारत को पाकिस्तान से 350 सर ले आने चाहिए थे. मगर सरकार पाकिस्तान को साड़ी और आम के तोहफ़े भेजने और बर्थडे का केक खिलाने में व्यस्त है. 2014 के लोकसभा चुनाव से पूर्व 'आप की अदालत' के एक ख़ास इमेज बिल्डिंग कार्यक्रम में रजत शर्मा के सवाल ‘अगर आप प्रधानमंत्री होते तो आतंकी घटनाओं पर क्या करते?’ के जवाब में प्रधानमंत्री पद के उम्मीदवार नरेंद्र मोदी ने कहा था, 'मैंने जो गुजरात में किया वही करता. पकिस्तान को लव लेटर लिखना छोड़ उसे उसी की भाषा में जवाब देना चाहिए.’
तो आज जब नरेन्द्र मोदी सत्ता में हैं, प्रधानमन्त्री हैं तो 'गुजरात की तरह' पाकिस्तान पर कार्रवाई क्यों नहीं करते? अगर पाकिस्तान सिर्फ़ आतंकवाद और जंग की ही भाषा समझता है तो उसे उसी की भाषा में जवाब देने में अब कौन-सी रुकावट है? पाकिस्तान के ‘कश्मीर की आज़ादी’ के जवाब में जब मोदी ‘बलूचिस्तान की आज़ादी’ को समर्थन और बलूच नेताओं को ‘राजनीतिक शरण’ दे सकते हैं तो पाकिस्तान को उसी की भाषा में जवाब देने में कैसी असमर्थता? क्या नरेंद्र मोदी के 56 इंच सीने में इतनी निर्भीकता नहीं कि पाकिस्तान को ‘शत्रु-देश’ घोषित कर उसे उसी की भाषा में सबक़ सिखा पाएं?
केन्द्रीय गृहमंत्री राजनाथ सिंह ने सीमाओं की सुरक्षा को लेकर बयान दिया था कि ‘हम सीमा की ऐसी सुरक्षा इंश्योर करेंगे कि चूहा भी सीमा पार नहीं कर पाए’. वहीं पठानकोट हमले के बाद रक्षामंत्री मनोहर पर्रीकर का ट्वीट आया कि ‘अगली बार वो (पाकिस्तानी आतंकी) हमसे बिना पूछे भारत की सीमा में नहीं घुस सकते’...
तो क्या इससे ये सिद्ध नहीं नहीं होता कि राजनाथ सिंह ने सीमाओं की सुरक्षा इसलिए नहीं बढाई कि मनोहर पर्रीकर की इजाज़त लेकर आतंकवादी हमारे देश की सीमा में घुस सकें और सेना के अंगों से जुड़ों संस्थाओं पर हमले कर सकें जिससे राष्ट्रवाद के उन्माद को भड़का कर चुनावी फ़सल काटी जा सके?
दिसम्बर 2014 में भी आतंकियों ने उड़ी में हमला किया था और ये दूसरा हमला है. यानी सरकार और सेना अपनी ग़लतियों को छिपाने और सैनिकों की शहादत की आड़ में अपनी जवाबदेही से बचना चाह रही है. सरकार सैनिकों की भर्ती सीमा की रखवाली के लिए ही करती है और इसके लिए GDP का एक बड़ा हिस्सा सेना पर ख़र्च होता है तो आतंकी हमलों में विफलताओं और सैनिकों की शहादत की जवाबदेही किसकी है? अत्याधुनिक हथियारों/उपकरणों और चौबीस घंटे निगरानी के बाद आतंकी भारतीय सीमा में कैसे घुस जाते हैं? अगर आतंकी भारतीय सीमा में घुसते हैं तो इसका सीधा-सा मतलब है कि या तो सेना ईमानदारी से अपना काम नहीं कर रही है या फिर सेना की आतंकवादियों से मिली भगत है (जिसके कुछ सुराग पठानकोट हमले में भी मिले थे).
सेना को पूर्ण रूप से राष्ट्रवादी मानने का ही ये ख़ामियाज़ा है कि आतंकी सीमा पारकर कई-कई किलोमीटर भीतर तक घुस आते हैं और हमें ख़बर तक नहीं होती. सेना के कई जवान कई बार पाकिस्तान से सेना की ख़ुफ़िया जानकारियों को साझा करने के जुर्म में पकड़े भी गए हैं इसलिए आंख मूंदकर सेना पर विश्वास करने के बजाय सेना को जवाबदेह बनाना होगा.
अगर सरकारी कर्मचारी अपना काम इमानदारी से नहीं करता है तो उसे उसे तुरंत 'कामचोर' कह दिया जाता है, सरकारी मास्टर वक़्त पर स्कूल ना पहुंचे या बच्चों को ना पढ़ाए तो महकमा उसे सस्पेंड कर देगा. मगर सेना की कोताहियों या ग़लतियों पर कोई सवाल नहीं? सवाल उठाने वाले को सोशल मीडिया पर देशद्रोही क़रार दे दिया जाता है? देशभक्त के फ़ॉर्मूले में क्या सिर्फ़ सेना और सरकार ही आती है क्या? किसान, वैज्ञानिक, छात्र, मज़दूर और अन्य कामगार लोग देशभक्त नहीं है? देश की सेना (तीनों अंगो) को देश की सुरक्षा के लिए ही रखा गया है ऐसे में इनपर जवाबदेही तय की जानी बेहद ज़रूरी है. ऐसा मैं इसलिए कह रहा हूं क्योंकि देश के 125 करोड़ से ज़्यादा लोगों की सुरक्षा की ज़िम्मेदारी इन पर है और जिन पर इतनी बड़ी जिम्मेदारी है, उनकी जवाबदेही बिलकुल बनती है और सेना को जवाबदेह होना ही होगा. रही बात हर आतंकी घटना के बाद 'वीर मीडिया चैनलों' द्वारा पाकिस्तान पर हमले का सुझाव देने की तो ना तो अब 1971 वाला पाकिस्तान है और ना ही इन्दिरा गांधी जैसी प्रधानमंत्री जो भारत के सामने घुटने टेक अपने सैनिकों सहित समर्पण कर देगा.
‘प्रॉक्सी वार’ में चीन भी पाकिस्तान के साथ होगा. हम अमरीका भी नहीं है जो पाकिस्तान में घुस के ‘ओसामा’ को मार आएं और वो कुछ कर भी ना सके. सरकार बलूचिस्तान का राग अलापने के बाद भी इतनी गफ़लत में क्यों थी? कश्मीर की मौजूदा हालत पर पाकिस्तान ने ‘काला दिवस’ मनाकर स्पष्ट चेतावनी नहीं दे दी थी? सुरक्षा एजेंसियां और NSA अजीत डोभाल क्या कर रहे हैं? रेफ्रीजरेटर में बीफ़ ढूढूंढ लेने वाला देश, और कहीं भी बम विस्फोट के बाद मुस्लिमों को ही दोषी ठहरा देने वाली गुप्तचर संस्थाएं सरहद पार से होनी वाली आतंकी गतिविधियों को भांप लेने में इतनी असमर्थ क्यों हैं? आज दोनों देशों के पास परमाणु हथियार हैं, जो मानवता के लिए घातक हैं और युद्ध किसी भी मसले का हल नहीं है. ज़रुरत है ‘कड़ी निंदा’ के दौर से निकलकर सेना को जवाबदेह बनाने की. जब सेना जवाबदेह होगी तभी शहीदों का सही सम्मान होगा वरना हम बस शहीदों के कफ़न की आड़ अपनी नाकामी और कमज़ोरी छुपाकर देशभक्ति का आलाप लेते रहेंगे और आतंकी बार-बार हमें छद्म तरीकों से नुकसान पहुंचाते रहेंगे? आख़िर हम किस हमले और कितनी मौतों के बाद जवाबदेही तय करेंगे? और अगर तय करेंगे तो किन-किन पर?
~
नैय्यर इमाम सिद्दीक़ी

Friday, 22 July 2016

राष्ट्र ध्वज तिरंगे को किस ने डिज़ाइन किया था?

राष्ट्र ध्वज तिरंगे का डिज़ाइनर कौन था? जब भी is सवाल का जवाब ढूंढने के लिए इंटरनेट से लेकर इतिहास की किताबों को छाना राष्ट्र धवज के डिज़ाइनर के रूप में हमेशा पिन्गल्ली वेंकैय्या जी का ही नाम मिला जब्कि ये सारा सरासर ग़लत है. 

राष्ट्र ध्वज का डिज़ाइन हैदराबादी मुस्लिम महिला सुरैय्या तैय्यब जी ने किया था. ब्रिटिश इतिहासकार 'ट्रेवोर रॉयल' नें अपनी किताब  “The Last Days of the Raj” में लिखा है कि भारत के राष्ट्र ध्वज का डिज़ाइन बदरुद्दीन तैय्यब जी की पत्नी सुरैय्या तैय्यब जी ने दिया था जिसे 17 जुलाई 1947 को अधिकारिक रूप से मान्यता दे दिया गया. जाने किस नियत और उद्देश्य से इतिहास के पन्नों से मुसलमानों की उपलब्धियाँ खुरची जा रही हैं.

राष्ट्र ध्वज की असली डिज़ाइनर के बारे में सही जानकारी के साथ-साथ सभी देशवासियों को राष्ट्र धवज के 69 वें जन्मदिवस की अनेकानेक बधाइयाँ एवं शुभकामनाएँ. 

ज़्यादा जानकारी के लिए इसे पढ़ें :

क्या कभी हमने दाढ़ी टैक्स और मस्जिद टैक्स के बारे में सुना है?

जज़िया कर और तीर्थ यात्रा महसूल के बारे में तो हम सबने सुना है पर क्या कभी हमने दाढ़ी टैक्स और मस्जिद टैक्स के बारे में सुना है? नहीं न? क्यूँकि इस देश के इतिहास को हमेशा पक्षपाती नज़रिये से ही लिखा गया है। पक्षपाती इतिहासकार सच छिपाने के लिए जितने गुनहगार हैं शायद उतने ही गुनहगार हम भी हैं क्यूँकि हमने बस एक ही पक्ष का इतिहास पढ़ कर उसपे आँख मूँद कर भरोसा कर लिया है। हमने कभी दूसरे पक्ष को जानने की कोशिश ही नहीं की या यूँ कहें कि हम में सच का सामना करने की हिम्मत ही नहीं है। 

ब्रिटिश हुक़ूमत शुरूआती दिनों में राजा-रजवाड़ों, नवाबों और ज़मींदारों को अपने अधीन कर परोक्ष रूप से भारत की जनता पर हुक़ूमत करती थी और बाद में सभी के हुक़ुमती अधिकारों को समाप्त कर भारत पर प्रत्यक्ष रूप से क़ाबिज़ हो गई। बंगाल प्रोविन्स के पोंटरा में कृष्णदेव रॉय बहुत बड़े ज़मींदार और हाकिम थे। उन्होंने अपने प्रान्त में बहुत बेहूदा और पक्षपाती क़ानून बना रखे थे, जैसे, कोई मुसलमान अगर दाढ़ी रखता था तो उसे पचास रुपये टैक्स देने पड़ते थे। अगर मुसलमानों ने कच्ची मस्जिद बनवाई तो पाँच सौ रुपये टैक्स और अगर पक्की मस्जिद का सोचा तो एक हज़ार रूपये टैक्स के रूप में भरने पड़ते थे। यहाँ तक कि मुसलमानों को मुसलमानों वाला नाम रखने तक की इजाज़त नहीं थी तो भला ग़रीब मुसलमान 18वीं शताब्दी में पचास रुपये से लेकर हज़ार रुपये तक का दंड कब तक और कहाँ से भरते? सो मुसलमान मजबूरन धीरे-धीरे इस्लाम से दूर होते गए। उस दौर में किसी टोडरमल को सम्राट अकबर के सामने धार्मिक आधार पर लगे टैक्स के ख़िलाफ़ न तो बोलने की इजाज़त थी ना ही हिम्मत। लेकिन वक़्त ने अपनी कोख से वो मुजाहिद जना जिसने इस पक्षपाती क़ानून के ख़िलाफ़ बग़ावत की शम्अ को रौशन किया।

बंगाल प्रोविन्स के चाँदपुर प्रान्त में 1782 ई० में मीर हसन अली के यहाँ एक बच्चा पैदा हुआ जिसका नाम मीर निसार अली रखा गया जिसे दुनिया "तीतू मीर" के नाम से जानती है। तीतू मीर अपनी जवानी में इस ज़ोर का पहलवान निकला कि उसे बंगाल और बिहार के रुस्तम की पदवी से नवाज़ा गया। पद्मा नदी के किनारे कुछ नौजवान कुश्ती के दाव-पेंच आज़मा रहे थे कि अचानक उन्हें एक तेज़ चीख़ सुनाई दी और सबके कान खड़े हो गए। हर एक नौजवान कुश्ती छोड़ इधर-उधर देखने लगा कि उनकी नज़र नदी में नहा रहे चार लड़कों पर पड़ी जिन पर मगरमच्छ ने हमला कर दिया था और वो चीख़ मगरमच्छ के मुँह में आने वाले लड़के की थी। 16-17 बरस के एक नौजवान ने अखाड़े के क़रीबी कमरे से दरांती की तरह का एक तेज़ धार हथियार 'दाऊ' उठाया और नदी में छलाँग लगा दी। वो पहलवान इतना ताक़तवर और निडर था कि उसने पानी में कूदते ही मगरमच्छ के जबड़े पर वार कर दिया और मगरमच्छ ने मुँह में लिया हुआ शिकार छोड़ हमला करने वाले पर अपनी पूँछ घुमा एक तेज़ वार किया मगर पहलवान डुबकी लगा कर साफ़ बच गया और अपने तेजधार हथियार से उसका पेट फाड़ दिया। थोड़ी ही देर में मगरमच्छ तड़प कर शांत हो गया। पहलवान ज़ख़्मी बच्चे को अपनी पीठ पर लाद कर तैरता हुआ किनारे पर ले आया जहाँ तीनों बच्चे डर के मारे थर-थर काँप रहे थे। यही बहादुर नौजवान पहलवान आगे क चलकर भारतीय उपमहाद्वीप के एक महान स्वतंत्रता सेनानी भी हुए। 

इसी तीतू मीर ने जब अपनी मज़हबी आज़ादी और पक्षपाती क़ानून के ख़िलाफ़ आवाज़ बुलंद की तो कृष्णदेव रॉय ने ये अफ़वाह उड़ा दी कि ये बंगाल से ब्रिटिश हुक़ूमत के ख़ात्मे और ख़ुद राजा बनने की शाजिश रच रहा है। नतीजतन ब्रिटिश फ़ौज और बंगाल प्रोविन्स के सारे हिन्दू ज़मींदारों की फ़ौज तीतू मीर के ख़िलाफ़ लामबंद हो गयी। कर्नल स्टीवर्ट के नेतृत्व में मार्च 1832 में हुगली के नारिकल बेट्रिया में ख़ूनी जंग हुई। ब्रिटिश और ज़मींदारों की फ़ौज तोप और बन्दूकों से लैस थी जब्कि तीतू मीर की फ़ौज तीर कमानों से। भला दोनों का क्या मुक़ाबला? लड़ाई ज़ोरों पर थी। तीतू मीर और उसके जाँबाज़ योद्धा बहुत दिलेरी से लड़ रहे थे तभी तोप के एक गोले ने तीतू मीर के बाँस के महल (जिसे बंगाली में भाशा कहा जाता है) को जला कर रख दिया और तीतू मीर दुःखी मन से उसे देखने लगा और इसी ज़रा सी ग़फ़लत में उसका ध्यान रणक्षेत्र से हटा और तभी तोप के दो गोले उसके सीने और कंधे को ले उड़े। तीतू मीर युद्ध के मैदान में ही शहीद हो गया लेकिन उसकी फ़ौज ने जो कोहराम मचाया वो इतिहास में दर्ज है। तीतू मीर की फ़ौज ने बंगाल के कई हिस्से जीत लिए मगर तोप के सामने तीर कब तक टिकते। अंततः जीत अंग्रेजों और ज़मींदारों की जीत हुई मगर तीतू मीर की क़ुर्बानी ने बंगाली मुसलमानों को उनके मज़हबी हक़ के लिए आवाज़ बुलंद करना सिखा दिया। तीतू मीर का मज़ार नारिकल बेट्रिया, हुगली, कोलकाता में है जो उस अज़ीम क़ुर्बानी की याद को क़यामत तक के लिए ज़िंदा रखने के लिए वचनबद्ध है।

~
- नैय्यर

Thursday, 14 July 2016

क़ुर्बानी

'आज तो आपको घर जाना है न?' दो दिन पहले जब मुझे घर के लिए निकलना था तो मेरी दोस्त ने सुबह ही सुबह मैसेज कर के पूछा।
'हाँ ! शाम को 7:30 की ट्रेन है', मैंने जवाब दिया। और पता, जब ट्रेन कानपुर पहुँचेगी तो मैं उसके नाम अपना सलाम छोड़ जाऊँगा, मैंने शरारत से कहा।
'इतनी ज़ोर से चिल्लाईयेगा कि आवाज़ हमीरपुर तक पहुँच जाए', उसकी भी शरारत उरूज़ पर थी। ऐसे वक़्त पर वो कहाँ बाज़ आने वाली थी।
'चिल्लाने की क्या ज़रुरत है, जब बेतवा नदी अपना वजूद यमुना के दामन में फ़ना करने आएगी तो यमुना मेरा सलाम उसके हवाले कर देगी और बेतवा मेरे पैग़ाम को उन हवाओं को सुना देगी जो हर दिन उसके तन को छू कर गुज़रा करती हैं और वो हवाएँ उसके कानों में हौले से मेरा सलाम कह देंगी।'
'ओफ़्फ़्फ़्फ़हो ! इतना लम्बा प्रोसेस?' फिर जवाब कैसे आएगा?
'उसी री-प्रोसेस से'- मैंने इत्मिनान से कहा।
'और...अगर उसने जवाब नहीं दिया तो?'
'जिस मुहब्बत का जवाब न आये, उसे इश्क़ कहते हैं'
'तो...आपको उस से इश्क़ हो गया है?'
'क्या हो गया है, ये तो नहीं पता पर उसका नाम मिसरी की डली की तरह मेरे होंटों से चिपक के रह गया है?'
'मतलब....?'
'मतलब ये कि ओरछा के मुहब्बत की दास्तान इतिहास के सिर्फ़ एक खंड काल की दास्तान नहीं है। ये मुहब्बत तो जन्म-जन्मान्तर का है। हर युग में बस रूहें बदल जाती हैं, जिस्म बदल जाते जाते हैं मगर इश्क़ का रूप वही सदियों पुराना वाला ही रहता है।'
'ऐसा क्यूँ?'
'क्यूँकि...मौत सिर्फ़ जिस्म को आती है मुहब्बत को नहीं और रूहें हर दौर में नए आशिक़ और माशूक़ तलाश कर लेती हैं। शायद इस दौर का आशिक़ मैं हूँ और माशूक़ वो।'
'अगर वो आपकी माशूक़ न हुई तो?'
'सच्ची मुहब्बत का नज़ूल दोनों पर एक साथ होता है, बस उनके नज़ूल का वक़्त अलग होता है। किसी एक को मुहब्बत का इल्हाम पहले होता है तो किसी एक को बाद में, किसी-किसी को तो ता-क़यामत मुहब्बत का इल्हाम नहीं होता। बस उनका मिलना न मिलना वक़्त और मुक़द्दर के भँवर में छुपा होता है।'
'मैं कुछ समझी नहीं...।'
'मुहब्बत न्यूकिलयर साइंस नहीं है जो समझने की ज़रुरत पड़े। मुहब्बत को समझा नहीं करते, महसूस करते हैं।
'फिर भी, कुछ तो पल्ले पड़े...।'
'सरस्वती और यमुना दोनों को गंगा से इश्क़ था और दोनों गंगा के लिए ख़ुद के वजूद को फ़ना करने के लिए भी तैयार थी। गंगा पर यमुना के इश्क़ का तो इल्हाम हुआ मगर सरस्वती के इश्क़ का नहीं। फिर भी सरस्वती का प्यार गंगा के लिए कम न हुआ। संगम पे दोनों ने अपने वजूद को गंगा में फ़ना कर दिया मगर चूँकि गंगा पर यमुना के इश्क़ का ख़ुमार इस क़दर तारी था कि वो सरस्वती की क़ुर्बानी फ़रामोश कर बैठी और यमुना को ख़ुद में छुपाये बनारस को मुड़ चली। सरस्वती अपनी बेरुख़ी सह नहीं पाई और वहीँ संगम पर ही अपनी आहुति दे गंगा के नाम पर अमर हो गयी। अगर...उसे भी मेरे इश्क़ का इल्हाम न हुआ तो मैं भी सरस्वती हो जाऊँगा और वैसे वो इश्क़ ही क्या जिसमें कोई ज़िंदा रह जाए।'
'क्यूँ, इश्क़ करने वाले ज़िंदा नहीं रहते क्या?'
जॉन ऐलिया ने कहा है कि ' इश्क़ पर कर्बला का साया है', सो इश्क़ को क़ुर्बानी से ही मुकम्मल होना है।
~
- नैय्यर /12-07-2015

Thursday, 23 June 2016

Why was Sriharikota chosen by ISRO as the place to launch rockets?

Location:
Located nearer to the equator, Sriharikota is the ideal launch site for geostationary satellites.
Sriharikota is ideal for eastward launches. SHAR’s location on the east coast ensures that it gains an additional velocity of 0.4 km/s due to Earth’s rotation to easily launch rockets. Most satellites are launched eastward.  It’s near to the equator (which benefits eastward launches, rotation of the Earth provides an extra little boost, so requires less fuel). There is also a proposal for a new launch pad at Kulaseka­ra­pa­ttinam in 2013 which is ideal for southward launches. PSLV can also launch satellites into geostationary orbit (Which is above the equator with 'zero inclination' to the equatorial plane) to achieve this launch site should be ideally located on the equator or close to the equator. Otherwise it has to be maneuvered for which extra fuel is required.

Western Coastline is eliminated as mostly all the launches are eastward launches. So imagine having a launch station somewhere near Mangalore. In case of failure, our Launch Vehicle will fall on the Indian ground and can cause casualties. So we can't have a launch station on the Western Coastline. Now coming to eastern side, for the same reason as above we cant use any location till we come above Sri-lanka (Obviously we don't want our failed satellite to fall in Sri-lanka). So moving up, from Nagapattinam to Chennai, we don't have any extruding island which will be ideal for a spaceport. So the nearest one is Sriharikota.

Accessibility:
Their equipments are huge and travel from across the world. For this very reason, It must be accessible by all means of transport; Land, Air, Water. At the same time, the site is prone for accidents. So, it should be remote away from inhabitants. Being a coastal islandish area with no habitation proves advantageous for Sriharikota because it is on National Highway (NH-5), 20 KM away from nearest Railway Station, and 70 KM (Chennai) from nearest International Ports by air & ships. Therefore, most space agencies set their launch pads up near large water bodies. Baikonur (in Kazakhstan) is an exception, but it lies in the middle of an uninhabited desert, so it is safe enough. Now, in the case of India, we have two coastlines where this can be done. India has two Rocket Launch stations, the first one is at Sriharikota ,which is a barrier island off the bay of bengal coast. The other is Thumba Equatorial Rocket Launching Station in Thiruvananthapuram, very close to the southern tip of mainland India.  Now we common thing between these launching station is that they are very close to the sea and far or on the edge of the Indian Main land, this has several benefits. 

Coastal Site:
You never know what falls off from a flying object. The maximum distance of impact from the launch site can be up-to 6,500 kms. See the map towards the east of Sriharikota. So, usually coastal areas are the preferred launch sites. It also ensures that no components are shed over populated areas after the launch. All multistage parts of the rockets after the launch can be collected from the sea with minimal damage. The areas have very little population and most residents are people who work for ISRO or are local fishermen, in case of a failure there would be minimal loss of life. They have sea on one side and land on another with only one road for connectivity, which makes securing the area easier. All this makes it an ideal spaceport.


4. Climate:
Heavy rains come only in October and November allowing them to test outdoor for 10 months in a year. There's no bad day than a rain day and Sriharikota offers you optimal rainfall.

It is no accident that Sriharikota is chosen. Sriharikota is not chosen among few options. It is THE OPTION for ISRO. Sriharikota silently played & playing its role in making India proud ever since the "Rohini-125" sounding rocket was launched in 1971.