Monday 28 November 2016

دوراہا‎


مدّتوں بعد ملنے والی خوشی نے لالی کے چہرے کو گلنار کر دیا ہے. آج لالی کے چہرے پر  شرم، خوشی اور .تشکر کے مارے سردیوں کے موسم کی گلابی صبح کی مانند لالی چھائی ہوئی ہے. جب سے اسنے خود میں یہ تبدیلی محسوس کی ہے اسنے بارہا یہ سوچا کے اپنی اس خوشی کو اپنے شوہر سے بتایے مگر فطری شرم اور جھجھک نے اسکو روک دیا. اسنے سوچا کی پتا نہیں وہ یہ خبر سن کر خوش ہونگے یا نہیں؟ اگر خوش نہیں ہوئے تو…؟ بھلا خوش کیوں نہ ہونگے…اتنے عرصے بعد تو ہمارے یہاں کسی خوشی نے .دستک دی ہے اور اسمے خوش نہ ہونے کا تو کوئی جواز ہی نہیں ہے.  وہ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ یہ خبر اپنے شوہر کو ابھی بتایے یا نہیں، تبھی اسے خیال آیا کہ  پہلے اسے ڈاکٹر سے مشورہ کر لینا چاہیے. پچھلے گزرے سانحے نے اسکے چہرے کی لالی کو معدوم سا کر دیا. اسنے ایک حتمی فیصلہ کیا کہ وہ  پہلے ڈاکر سے چیک اپ  کرواےگی  اور مثبت رپورٹ آنے کے بعد ہی اپنے شوہر کو اس بارے میں کچھ بھی بتائے . 
  لالی نےاس بارے میں  حتمی فیصلہ تو کر لیا مگر اسکے دماغ کے پردے پر 7 سال پہلے کی ساری کہانی فلم کی مانند چلنے لگی.تب لالی کی عمر   33  کے اس پاس تھی اور وہ تیسری بار حملہ تھی. ارون اور وہ دونوں بہت خوش تھے. حالانکہ دونوں نے کی بار اسس مسلے پر بات کیا تھا کہ  ہم پریوار چھوٹا ہی رکھیں گے مگر ارون کو بچوں سے بہت لگاؤ تھا. لالی نے ارون کے محبّت کو دو خوبصورت شاھکار کے پیکر میں ڈھال کر اسے تحفے میں دیا تھا دیپتی اور پرشانت کی شکل میں اور اس بار بھی لالی اپنی سیپ میں ارون کی محبّت کو پھر سے سینچ کر گوہر کرنے کو تیّار تھی.

وقت اپنی مخصوص رفتار سے رواں دواں تھا. لالی، جو کہ اب حاملہ تھی اسے گھر اور آفس کے کام وقت پر انجام دینے میں دشواریاں ہونے لگی تھیں. ابھی تو وو اپنے حمل کے چوتھے مہینے کے مراحل سے ہی گزر رہی تھی مگر جتنا بوجھ وہ اپنے کوکھ میں ڈھو رہی تھی اس سے کہیں زیادہ بوجھ اسکے ذہن پر تھا. دو چھوٹے بچوں کو سمبھالنا، اسکول، انکی پڑھائی، انکے کھانے پینے کا خیال اور اوپر سے شوہر اور آفس کے روز کے درجنوں کام. لالی بلکل گھن چکّر بن کر رہ گیی تھی. وقت کے ساتھ ساتھ لالی کی پریشانیاں اسکے پیٹ کی طرح بڑھتی جا رہی تھی اور کام کا بوجھ  اسکے پاؤں کی طرح بھاری ہوتے جا رہے تھے. اسی اثناء میں اسنے بمشکل دو مہینے اور کاٹے اور جیسے ہی حمل کا چٹھا مہینہ پورا ہوا اسنے پری-پریگنینسی کے تین مہینے کی چھٹی کی عرضی لگا دی. 

جیسے جیسے ڈلیوری کے دن قریب آ رہے تھے ارون کی محبّت بچوں کی مانند بڑھتی جا رہی تھی. ساتویں مہینے کے دوران ہیلالی کو تیز بخار رہنے لگا. شروع میں تو اس نے موسمی بخار سمجھ کر تال مٹول کیا مگر وقت کے ساتھ بخار کی شدّت بڑھتی گئی. لالی اب اس حالت میں نہیں تھی کی اکیلے ہسپتال جا سکے. ارون کے آفس میں بھی ان دنوں کچھ ضروری میٹنگز چل رہیں تھیں جس وجہ سے اسے چھٹی ملنی مشکل ہو رہی تھیں اور اسی چکّر  میں چند روز اور گزر گئے اور ادھر دن بہ دن لالی کی حالت بگڑتی جا رہی تھی. لالی کی حالت کو دیکھتے ہوئے ناچار اروں نے میڈیکل گراؤنڈ پر دیا کہ اپنی وائف کے لئے چھٹی کی عرضی دے دی. جب لالی ہسپتال میں داخل ہوئی تو اسکی حالت بدتر ہو چکی تھی. چیک اپ کے بعد ڈاکٹرز نے جواب    دے دیا کہ  اگر ابورشن نہیں کیا گیا تو  ماں اور بچے دونوں کو خطرہ ہو سکتا ہے اور یوں لالی کو اپنا حمل ساقط کرنا پڑا.  

یہ سانحہ لالی کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں تھا. ارونتو خیر مرد تھا مگر لالی کے کے لئے تو اسے بھولنا بہت ہی مشکل تھا. وقت کے ساتھ ارون تو اس غم کو بھول گیا مگر لالی....لالی کیسے بھول جاتی. اپنے وجود کے حصّے کو فراموش کر پانا اتنا آسان نہیں ہوتا؟ وہ بھی اس وجود کو جسے سات مہینے تک پروش کی اور اسکی شکل تک نہیں دیکھی. اس ان دیکھےعذاب کا قرب تو بس ایک ماں ہی جان سکتی ہے. لالی وقت کے ساتھ اپنے اس دکھ کو اپنے وجود میں گھولتی چلی گیی. اب وو پہلے کی طرح ہنستی مسکراتی، شوخی اچھالنے والی لالی نہیں تھی. قدرت کے اس عجیب کھیل نے اسکے ہونٹھوں سے اسکی پھول سے ہنسی چھین لی تھی. لالی بھی ارون کے چھوٹے سے پریوار کے راے سے متفق تھی مگر جب سے اسکا حمل ساقط ہوا تھا تب سے ارون بھی کچھ بجھا بجھا سے رہنے رہنے لگا تھا. کچھ تو آفس میں ملنے والی ترقی اور اس سے بڑھی  ذمےداری تھی تو کچھ اس اولاد کی محرومی کا دکھ تھا. ارون کے دکھ کا سوچ سوچ کر لالی اور دکھی رہنے لگی تھی. آفس کا کام کرتے وقت بھی لالی کا دھیان ارون پر ہی لگا رہتا. اس دوہرے سوچ اور ذہنی دباؤ نے اسکی صحت پر مضر اثر ڈالا اور وو چپ چاپ اپنی گرتی صحت کو سمبھالتی رہی، اس بارے میں ایک بار بھی اس نے  ارون سے ذکر تک نہیں کیا. ارون بھی شاید اب اس سے کچھ لاپرواہ سا رہنے لگا تھا. لالی کے شب و روز درد اور اضطراب میں گزرنے لگے. اسے یوں لگتا جیسے حمل ساقط اسی کی وجہ سے ہوا ہے اور وہی اسکی واحد ذمےدار ہے. لالی استقاط حمل کے لئے خود کو ہی گنہگار سمجھنے لگی اور اسکی سب سے بڑی وجہ تھی دوبارہ ماں بننے میں ہونے والی مشکلات .گزرتے وقتوں میں لالی نے ارون کو پھر سے بچے کے لئے منایا اور کئی کوششوں کے باوجود بھی لالی کو حمل نہیں ٹھہر پا رہا تھا. ادھر لالی خود پریشان تھی اور اسکی بار بار کی ڈیمانڈ پر ارون الگ جھنجھلا جاتا. دوران تنہائی لالی کو کی بار جھڑک بھی دیتا کی جب تم ماں بن ہی نہیں سکتی تو میری اتنی محنتوں اور کوششوں کا کیا فایدہ؟ لیکن لالی اپنا مان، اپنی آنا سب کچھ تج کر اس سے منّت سماجت کرتی کی ایک بار اور کوشش کر لینے میں کیا برائی ہے؟ اور یوں لالی کو اپنی آنا، اپنی روح زخمی کرتے اور ارون کی جھڑکیاں سنتے سنتے سات سال کا طویل عرصہ گزر گیا اور آخر کار خدا نے اسکی خاموش آنسوں کی لاج رکھ لی اور اسکی کوکھ چوتھی بار آباد ہو گی.

صبح جب سے اسے خود کے حاملہ ہونے کا یقین ہوا تب سے وو بےتحاشہ خوش ہے. اسکے چہرے پر خوشیوں کی دھنک سی بکھری ہوئی ہے. لالی نے گھڑی کی طرف دیکھا، ڈھائی بجنے کو تھے، اسنے آفس سے آدھے دن کی چھٹی لی اور اور سیدھے ہسپتال کے لئے نکل گی. گھنٹے بھر بعد جب اسکا نمبر آیا تو ڈاکٹر الکا نے بڑی گرمجوشی سے اسکا استقبال کیا اور پھر اسکے آنے کا سبب پوچھا. 40 سالہ لالی نے نگاہ نیچے کے، شرماتے ہوئے اپنے حاملہ ہونے کی بات  بتائی تو بیساختہ ڈاکٹر الکا نے اسے گلے سے لگا لیا اور ڈھیروں مبارکباد دے ڈالیں. انہوں نے کچھ ضروریٹیسٹس  .کروائیں اور مثبت رپورٹ آنے پر دوبارہ مبارکباد دیتے ہوئے لالی کو رخصت کیا 

اب لالی بیحد خوش تھی. ایک ہاتھ میں میڈیکل رپورٹس تھامے، دوسرے ہاتھ سے اسنے اپنے ہینڈ بیگ سے موبائل نکالا اور ارون کو کال کر اسے بھی مبارکباد دی. حالانکہ دوسری طرف سے کسی گرمجوشی کا اظہر تک نہیں ہوا. لالی بجھ سی گئی. اسنے پاس سے گزر رہے آٹو کو روکا،ایڈریس بتایا، ہاتھ میں پکڑے ہوے سامان کو ایک طرف رکھا  اور اپنا تھکا، بکھرا ہوا وجود سیٹ پر ڈال دیا. اسے ارون سے ایسے توقع کی امید قطعی نہیں تھی. جتنی تیزی سے آٹو سڑک پر بھاگ رہا تھا اتنی ہی تیزی سے لالی کے دماغ پر کالج کے زمانے کے سین چلنے لگے. 

لالی یانی لالیما شریواستو ارون سنہا سے پہلی بار دہلی یونیورسٹی میں ملی تھی. دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے. دوستی نے کب دبے پاؤں دونوں کے دلوں میں دستک جمائ، انہیں خبر تک نہیں ہی. وقت موسموں کے دوش پر سوار اپنا سفر طے کرتا رہا. ایک دن جب لالیما کنیر کے پیڑ کے تنے سے ٹیک لگاے اپنے نوٹس مکمل کر رہی تھی تبھی وہاں ارون آ پہونچا. اسنے گھاس پر بیٹھتے ہوئے لالیما سے پوچھا -'کیا تم میری زندگی کیو ہمسفر بنوگی؟' لالیما ایسے سوال کے لئے تو قطعی تیار نہیں تھی، ایسا نہیں تھا کہ اسکے دل میں ارون کے پیار کی انکور نہیں پھوٹی تھی لیکن ابھی وہ  کسی کو  بھی اپنی محبّت کے جذبے سے آشکار نہیں کرنا چاہتی تھی. ابھی تو اسکی پڑھائی بھی مکمّل نہیں ہوئی تھی، ابھی تو اسنے اپنے سپنوں میں ہزاروں رنگوں کو بھرنا تھا. مگر ارون کے سوال نے اسے سوچوں میں گم کر دیا.
'کیا سوچنے لگیں؟ کیا تمھیں زندگی کے سفر میں میرا ہمسفر بننا پسند نہیں؟؛
'نہیں....ایسا نہیں ہے...ابھی تو...'
'دیکھو، کوئی زبردستی نہیں ہے، اگرتمہارا دل میرے ساتھ پر آمادہ نہیں تو تمھیں انکار کا پورا اختیار حاصل ہے'
'ایسی بات نہیں ہے ارون، مجھے سوچنے کا کچھ وقت تو دو'

لالیما نے یوں تو سوچنے کے لئے وقت مانگ لیا تھا مگر وہ دل ہی دل میں زندگی بھر ارون جیسے ساتھی کے ساتھ کا سوچ کر خوش تھی. لالیما تو خود بھی ارون کو چاہتی تھی مگر اسکی یہ چاہت اسکی زباں پر کبھی سوال یا اظہار بن کر نہیں آیا تھا مگر جب اسکی چاہت سامنے دست سوال بن کر سامنے آیا تو پہلے تو اسے اپنی چاہت پر ہی یقین نہیں آیا. جواب دینے کا وقت تو لالیما نے محض اس لئے مانگا تھا کہ وو اپنی بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کو ارون کی چاہت کے ساز پر ترتیب دے سکے اور اپنی سوچوں کے خاکے کو ارون کی چاہت کے رنگوں میں رنگ سکے. 3 دن بعد ہی لالیما نے ارون کو اپنی رضامندی دے دی. کالج کے آخری چھہ مہینے ہی بچے تھے اب اور طے یہ پایا کی امتحان کے بعد ہی دونوں شادی کے پاکیزہ بندھن میں بندھ جاینگے. لالیما اور ارون دونوں کو اپنی محبّت پر بہت فخر تھا کیوںکہ انہیں زمانے  اور اپنے اپنے گھرانوں کی مخالفت کا بلکل بھی سامنا نہیں کرنا پڑا اور انکی منگنی بہت ہی دھوم دھام سے ہو گیی. وقت بھلا کب کسی کے لئے رکتا ہے جو لالیما اور ارون کا انتظار کرتا. وقت ان دونوں کی مٹھی سے بھی پھسلتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے امتحان کے موسم قریب آ گئے.    

امتحان کے موسم گزرتے ہی لالیما اور ارون پاکیزہ بندھن میں بندھ گئے. اور اسطرح لالیما اپنی زندگی کا ایک حصّہ، جو اسنے بچپن سے لیکر جوانی تک ماں-باپ کی دہلیز پر جیا اسے چھوڑ ارون کے گھر آ گیی. اپ اسکے سپنوں کے رنگوں کا مرکز صرف اور صرف ارون تھا. امتحان کے نتیجے آتے ہی ارون کو ایک پرائیویٹ فرم میں مینیجر کی نوکری بھی مل گئی اور یوں انکی گاڑی زندگی کے سفر پر نکل پڑی. لالیما کے زندگی میں قدرت نے بیشمار پھول کھلا دے اور ادھر ارون کی والہانہ محبّت نے اسکی کھوکھ آباد کر دی. اگلے ہی سال لالیما نے دیپتی کی شکل میں اپنی گلشن میں ایک نیا پھول کھلا دیا. ابھی دیپتی صرف دو ہی سال کی تھی کہ لالیما ایک بار پھر اپنی کوکھ میں ارون کے محبّت کے بیج کو سینچ رہی رہی تھی...اور اس NGOبار پرشانت نے آکر جیسے انکے پریوار کو مکمل کر دیا تھا. دوسرے بچے کے بعد اسنے بھی سوشل ورک کرنے والی ایک 
 میں نوکری کر لی  شروع میں تھوڑی پریشانی ہوئی مگر بعد میں اسکے گھر اور نوکری کے بیچ توازن بنانا سیکھ لیا اور وہ دھیرے دھیرے اس کام میں ماہر ہو گیی.

آٹو کے اچانک رکنے پر اسکی سوچوں کا سلسلہ رکا. اسنے اپنی سوچوں پر کچھ پل کا پہرا لگایا اور آٹو کو بایئں طرف دوسری لیں میں مڑنے کا کہ کر پیسے نکالنے لگی. کرایا ادا کر کے اسنے گھر میں قدم رکھا اور فرج سے ٹھنڈا پانی نکل کر گٹا گٹ کئی گھونٹ پی گی. جب ہوس کچھ قابو میں آے تو اسنے اپنی سوچوں کو پھر سے یکجا کیا. اور وہیں اٹک گیی جب سات سال پہلے وہ ارون کے ایک اور پھول کو سینچ رہی تھی مگر وہ وقت سے پہلے ہی مرجھا گیا. پرانی کسک کے درد کی ٹیس پھر سے ہوک بن کر دل کو ستانے لگی مگر تبھی ڈاکٹر الکا کی نصیحت اسے یاد آ گیی اور بیساختہ اسکے لبوں پر ایک بھرپور ہنسی تیر گئی. لالی کچن کی طرف مڈ گیی اور چولہے چائے کا پانی چڑھا کر ارون کے رویے کے بارے میں سوچنے لگی مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی.   

رات میں ارون جب گھر واپس آیا تو اسنے اپنے حاملہ  ہونے کی بات دوبارہ ارون کو سنی مگر اس بار بھی ارون کا انداز سرد ہی رہا. اسنے ہمّت کر کے پوچھا 'تمھیں خوشی نہیں ہوئی؟'
'نہیں'. لہجہ سپاٹ اور برف کی طرح سرد تھا. 
کیوں؟ '
'کیونکہ اب مجھے بچوں کی خواہش نہیں رہی'
'مگر تمھیں بچے تو بہت پسند ہیں'
'ہیں نہیں...تھے'
'تمہاری عمر اب 40 کی ہو چکی ہے، دیپتی اپ  دسویں میں ہے اور پرشانت آٹھویں میں، ہمیں انکے خرچے، انکے مستقبل کا سوچنا ہے'
'مگر...کماتے تو ہم دونوں ہی ہیں، تو خرچے کی تو کوئی مشکل نہیں ہوگی'
'تم کیا سمجھتی ہو، تمہارے چند ہزار سے ہی یہ سارے خرچے پورے ہوتے ہیں؟'
'میری مانو تو تم ابورشن کرا لو'-  لالی کا دل ارون کے لہجے کی وجہ سے کٹ کر رہ گیا اور وو اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر چلی گیی اور اس کے بعد ان دونوں میں دوریاں  اتنی بڑھ گیئں کہ ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی دونوں صرف ضرورت کے وقت ہی بات کرتے. لالی کی گود کئی راتوں کو خاموشی سے آنسو بہانے اور ہزاروں منتوں کے بعد ہری ہوئی تھی اور ارون نے کتنی بیدردی سے حمل گرانے کی صلاح دے دی. اف! 

.لالی اپنے حمل کے آخری دور میں تھی جب اسنے اپنے سینے میں درد کی شکایات ڈاکٹر الکا کو بتائی 
'اس حالت میں سینے میں درد؟ ڈاکٹر الکا نے تشویش سے کہا'
'کیوں...کوئی پریشانی والی بات؟؛
'جبتک میں ٹیسٹ نہیں کرا لیتی کچھ بھی یقین سے نہیں کہ سکتی ویسے میرا شک بریسٹ کینسر کی طرف ہے'

بریسٹ کینسر کا نام سنتے ہی لالیما کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا، اورٹیسٹس نے بھی ڈاکٹر الکا کے شک پر یقین کی مہر لگا دی. ڈلیوری میں اب صرف چند ہفتے باقی تھے...اور ایسے میں بریسٹ کینسر.....لالی ا س سے آگے کچھ بھی سوچ سکنے سے قاصر تھی. گزرتے وقت کے ساتھ درد کی شدّت بڑھتی جا رہی تھی. یہ بیماری پرانی تھی جو اب جڑ جما چکی تھی. لالی کی گرتی صحت کا بھی یہی راز تھا، مگر وہ  اپنے صحت کا خیال چھوڑ ارون کی خواہش کو پورا کرنے کے فراق میں گھل رہی تھی...اور جب وہ اسکی خواہش پوری کرنے کے عنقریب تھی تو وہی ارون لالی کے فیصلے کے خلاف تھا اور اوپر سے قدرت کی ستم ظریفی کہ وہ ایک لگبھگ لا علاج مرج میں مبتلا تھی. اگر اسکی زندگی کا ہمسفر اسکا ساتھ دیتا یا بیماری کا پہلے پتا چلتا تو وہ اس درد کو بھی ارون کی بےرخی کی طرح برداشت کر لیتی.

'ڈلیوری کے بعد تمہارے بریسٹ کا آپریشن کرنا پڑیگا' ڈاکٹر الکا نے اسے آگاہ کیا
'کیوں؟؛
'کیونکہ یہ کینسر اپنی آخری منزل کو پہنچ چکا ہے، تم اپنے بچے کو اپنا دودھ بھی نہیں پلا سکتی کیونکہ دودھ بھی اب زہر بن چکا ہے. اور اگر اب بھی تمہارا آپریشن نہیں ہوا اور بریسٹ کاٹ کر الگ نہیں کیا گیا تو ڈر ہے کہ کہیں یہ مرض دھیرے دھیرے پورے جسم میں نہ پھیل جائے.
'پرسوں تمہاری ڈلیوری ہے اور اسکے دو دن بعد تمہارا آپریشن' ڈاکٹر الکا کے اس بات کا لالی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، وہ گردن موڑ خاموشی سے اپنی بےبسی پر آنسو بہانے لگی.

آپریشن کے ہفتے دن بعد جب لالی اپنے گھر واپس آئ تو ارون نے کہا اب یہاں کیوں آئ ہو؟
'مطلب؟' 
'مطلب کہ میرے گھر میں ''ادھوری عورت'' کے لئے کوئی جگہ نہیں'
'ادھوری عورت....؟
'ہاں....آپریشن کے بعد تو تم عورت کے پہچان سے ہی محروم ہو چکی ہو، تم اب بھی عورت ہو مگر مکمل نہیں...ادھوری عورت ہو ....اور میری زندگی میں ادھوری عورت کے لئے کوئی جگہ نہیں'

'لیکن یہ گھر صرف تمہارا ہی تو نہیں، میرا بھی ہے، ہمارے بچوں کا ہے'
'بلکل ہے' مگر تمہارے لئے نہیں....
'کیوں....'
'کیونکہ ایک مرد ایک بھرپور اور مکمل عورت کی اغوش میں سکوں پاتا ہے....اور جب تم خود ہی ادھوری ہو تو مجھے مکمّل تسکین اور سکوں کیسے دے سکتی ہو؟...تم اپنے لئے کوئی اور جگہ ڈھونڈھ لو. میں جلد ہی تمھیں طلاق کے کاغذ بھجوا دونگا.

لالی کو اپنے کانوں میں پگھلتا شیشہ سا محسوس ہوا. اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جسنے بہت چاؤ سے اسکا ہاتھ مانگا تھا، اسے اپنی زندگی کا ہمسفر بنایا تھا....مگر آج....اس سے آگے وہ کچھ سوچ ہی نہیں پائی. 

میری نسوانیت اتنی گری ہی نہیں ہے جو تم جیسے چند مردوں کی غلیظ سوچ کی  وجہ سے مجروح ہو جائے. عورت کا عورتپین اسکے بریسٹ میں نہیں اسکے جذبے، اسکے وقار، اسکی سوچ اور اسکے عزم میں ہوتا ہے. میں نے تمھیں پہچاننے اور سمجھنے میں غلطی کی جسکی سزا مجھے ملی، شاید قدرت مجھے اسی طرح تم سے آزاد کرانا چاہتی ہو، پہلے تو میں قدرت کی ستم ظریفی پر اسے کوستی رہی مگر میں اب تھوکتی  ہوں تم پرکہ میں نے تمہارے جیسے گھٹیا انسان کو اپنی زندگی کا ہمسفر چنا جسنے بیچ سفر میں میرا ساتھ چھوڑا. اگر قدرت تمہارے ساتھ کچھ برا کرتی تو کیا میں  تمہارے ادھورےپن  کا  آڑ لیکر تمہارا ساتھ چھوڑ دیتی؟، ہرگز نہیں کیونکہ میری سوچ تمہاری طرح گندی نہیں ہے. اور میں تھوکتی ہوں تمہارے طلاق کے اپر بھی. کاغذ کے چند ٹکڑے میری تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکتے. میں آج اور ابھی تمہارے گھر، تمہاری سوچ اور تمہارے گندے وجود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا رہی ہوں.

لالی نے واپس جاتے ہوئے ارون کو آخری بار پلٹ کر دیکھا اور کہا، تم یہ غلطفہمی اپنے دل سے نکال دو کی عورت کی زندگی ایک 'دوراہا' ہے، ایک راستہ ماییکے تو دوسرا سسرال کو جاتا ہے. عورت کی زندگی میں صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے عزت، وقار اور خودمختاری کا اور آج سے میں اسی راستے کی ہمسفر ہوں.

الوداع 
نیّر امام -

No comments:

Post a Comment