Sunday 4 October 2015

شور

'تصویر مکّمل ہو گئی؟' رات کے تین بجے جب میں پورے انحماق سے آئینے کے سامنے بیٹھا 'سیلف پورٹریٹ' کو آخری ٹچ دینے میں محو تھا تبھی موبائل اسکرین پر اسکے نام کے کمکے جلنے لگے اور فون اسکے نام کی لن ترانی بجانے کے چکّر میں چیخ اٹھا- رنگوں کی ٹیوب کے پاس پڑے فون کو بائیں کان سے لگا کر میرے 'ہوں' کہتے ہی اسنے سوال پوچھ ڈالا-
'نہیں، ابھی آنکھوں اور ہونٹوں کی فینیشنگ باقی ہے جسے دن میں پورا کروں گا'- میں نے دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی کلر مکسنگ پلیٹ اور برش کو پاس پڑے اسٹول پر رکھ کر سگریٹ سلگاتے ہوے کہا-
'تو میں صبح آ جاؤں دیکھنے'، اسنے التجائی لہجے میں پوچھا-
'اب صبح تم کیا زحمت کروگی، کل گیارہ بجے سیدھے نمائش میں ہی چلی آنا اور وہیں دیکھ لینا- اب جیسا ہوں پورٹریٹ بھی تو ویسا ہی ہوگا نہ- ابھی میری برش میں یہ کمال پیدا نہیں ہوا کہ رنک کو راجہ بنا ڈالے اور نا ہی میرے برش میں کوئی جادوئی طاقت ہے-'
'نہیں نہ میرے بدّھو راجا، میں صبح آؤں گی اور نمائش پانچ تاریخ کو ہے اور آج چار تاریخ ہے- میں پورے ایک دن تمھاری پورٹریٹ دیکھنے کے لئے انتظار نہیں کر سکتی-'
'کہہ تو ایسے رہی ہو جیسے چوبیس گھنٹے تم میرے ہی ساتھ رہتی ہو-'
'اچھّا... اب لڑو تو نہیں، اور سنو... میں دوپہر میں تمہارے ہاتھ کا بنا 'دم آلو' کھاؤں گی اور ساتھ میں بریڈ کے میٹھے ٹکرے بنانا مت بھولنا- کل دن میں ملتے ہیں اور شام میں ساحل پر ہوا کھوری کے لئے بھی چلیں گے-' اپنا پروگرام سنا کر اسنے کال منقطع کر دیا-
ساحل...ہاں تم بھی تو بالکل ساحل کی ریت کی طرح میری مٹّھی سے پھسل چکی ہو، مٹّھی ہی کیا تم تو میرے قسمت میں ہی نہیں تھی شاید- قسمت بھی لکیروں کی عجیب بھول بھلیّا ہے، جو ماتھے کی لکیروں میں ہوتے ہیں وہ ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں اور قسمتوں کے پرے جا کر اگر کسی کا ہاتھ تھامنا چاہو تو زمانہ جانے کیوں مخالفت میں اتر جاتا ہے- رنگ سے سنے اپنے ہاتھوں میں اسکے نام کی لکیر کھوجتا رہا اور جب اسکے نام کی ایک بھی لکیر نہیں ملی تو تھک ہار کر بالوں کو رنگنے کے لئے مکس کئے ہوئے بلیک اور گرے رنگ کے امتجاز کو ہتھیلیوں پر رگڑ سیاہ آسمان کے ہمرنگ کر اسکے سامنے پھیلا دیا جسکا یہ دعوٰی ہے کہ وہ سبکی تقدیریں بنا کسی امتیاز کے لکھتا ہے- اگر وہ جوڑے آسمانوں پر بناتا ہے تو دل کی دھڑکنوں کو سلب کر اپنے اختیار میں کیوں نہیں رکھتا؟ وہ تو ہر چیز پر قادر ہے پھر جب دل کسی غیر کے لئے دھڑکتا ہے جسے اسنے ہماری تقدیر میں نہیں لکھا تو وہ ہماری خواہشوں کو روک کیوں نہیں دیتا؟
کاتبِ تقدیر سے شکوہ کرتے کرتے جانے کب میں نیند کی وادی میں اتر گیا- صبح جب آنکھ کھلی تو سورج کی نرم کرنیں زمیں کے لبوں کو بوسہ دے رہی تھیں- رنگ اور برش سوکھ کر اکڑ چکے تھے- کافی کا مگ بناتے ہوئے میں نے سگریٹ سلگایا اور گرم پانی میں برش کو ڈال کافی کی چوکی لیتے ہوئے رنگوں کا نیا آمیزہ تیّار کرنے لگا-
'یہ تم نے کتنی اداس آنکھیں بنائی ہیں اپنی، ایسا لگ رہا ہے جیسے سمندر کی ساری ویرانی تمھاری آنکھوں میں اتر آئی ہے- ایسی آنکھیں یا تو کسی دیوانے کی ہوتی ہیں یا پھر کسی قاتل کی-'
'میں تو دونوں ہوں، تمھارا دیوانہ اور اپنی محبّت کا قاتل-'
'ایسی باتیں کر کے میرا دل کیوں دکھاتے ہو تم؟ یہ تو تم ہی کہا کرتے تھے نہ کہ سچّی محبّت کبھی مکمل نہیں ہوتی اور شاید ہم دونوں ایک دوسرے کی قسمت میں تھے ہی نہیں پھر کیوں تم کو خود کو ہماری محبّت کا قاتل سمجھتے ہو-'
'کچھ لفظ اور سچّائیاں صرف کہنے اور کتابوں میں پڑھنے میں ہی اچھّی لگتی ہیں جیسے قسمت، محبّت، سماج وغیرہ اور ہر بار ہم قسمت کو ہی موردِ الزام کیوں ٹھہرائیں؟ تمھارے باپ ہی تو ہماری محبّت کے بیچ دیوار بن کر کھڑے ہوئے تھے، کبھی انہیں بھی کوس لیا کرو-' میں نے ہونٹوں کی لکیروں کو گہرا کرتے ہوئے کہا-
'وہ میرے باپ ہیں، سمجھا کرو ... اور جب والدین اپنی بیٹی کو بیاہ کر خود سے الگ دوسرے گھر بھیجتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ لڑکا مالی اعتبار سے مستحکم ہو تاکہ اس کی نازوں پلی بیٹی کو کوئی تکلیف نہ ہو-'
'ہاں... میں تو جیسے سڑک پہ تھا نہ، اچھّی خاصی تعلیم ہے میرے پاس اور میری پینٹنگز لاکھوں میں بکتی ہیں پھر تمھارے باپ کو یہ خدشہ کیوں تھا کہ میں مالی اعتبار سے مستحکم نہیں ہوں-'
'کیونکہ تم نے اپنی اچھّی بھلی آرکیٹیکچر کی جاب چھوڑ کر پینٹ برش تھام لیا اور میرے باپ کے حساب سے یہ کوئی مستحکم جاب نہیں ہے، کبھی دل کیا تو ایک دن میں درجنوں تصاویر بنا ڈالی اور کبھی ہفتوں برش تک نہیں چھوا-'
'انجینئرنگ کرانا میرے باپ کا سپنا تھا اور پینٹ برش کے ساتھ کینوس پر کھیلنا میرا سپنا تھا اور میں نے دونوں سپنے پورے کئے، ویسے تمھارے باپ کی پرابلم کیا تھی... مالی مستحکم یا مستحکم جاب؟ میری ایک پینٹنگ لاکھوں میں بکتی ہے اور میں آرکیٹیکچر کی جاب میں ایک مہینے میں لاکھوں کماتا تھا پر بھی تمھارے باپ کو اعتراض جانے کس بات پر تھا- انہیں تو بس ہماری محبّت کی راہ میں دیوار بننا تھا سو وہ بن گئے-'
'یار تو میرے باپ کی وجہ سے تم مجھ سے کیوں لڑ رہے ہو؟ چلو کھانا تو کھلاؤ بہت تیز بھوک لگ رہی ہے اب-'
'واؤ...بہت ہیترین ذائقہ، اسنے لقمہ منہ میں رکھتے ہوئے دل کھول کر تعریف کیا-' شکر تھا کہ کھانے کے دوران ہم دونوں کسی بات پر زیادہ غیر متّفق نہیں ہوئے-
منہ میں میٹھے بریڈ کا ٹکرا رکھتے ہوئے چھاؤں میں سوکھ رہی میری پورٹریٹ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس نے شاباشی میں میرے کندھے تھپتھپاتے ہوئے کہا 'یار کسی دن میرا بھی پورٹریٹ بنا دو-'
'نہیں...میں تمھارا پورٹریٹ نہیں بناؤں گا-'
'پر...کیوں؟'
'کیوں کہ میں اپنی زندگی کا ایک کینوس کھالی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ میں جب کبھی اس کینوس کو دیکھوں تو تمھاری تصویر ابھر جائے-'
'پر خالی کینوس پر تصویر کیسے ابھر سکتی ہے؟ '
'تمھاری تصویر میری ان آنکھوں میں بسی ہے اور میں جب بھی اپنی زندگی کے خالی کینوس کو دیکھوں گا تمھاری تصویر ابھر جایا کرے گی-'
'یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم ایک نہیں ہو سکتے، مجھے اس قدر دیوانہ وار نہ چاہو کہ ہماری جدائی تمھاری آنکھوں میں ٹوٹے کانچ کی مانند چبھنے لگے- تمھارا دل جو میری پناہگاہ تھا وہ تم نے پہلے ہی ویران کر رکھا ہے، اب میں تمھاری آنکھوں میں مقیم ہوں تو اسے تو کم سے کم مجروح نہ کرو، کہتے ہوئے وہ بے اختیار مجھ سے لپٹ گئ اور میری آنکھوں کو چوم لیا-
'اب تو سورج کی تپش بھی کم ہونے لگی ہے، تیّار ہو جاؤ ساحل پر چلتے ہیں... غروبِ آفتاب کا دلفریب منظر دیکھیں گے-'
'نہیں...دل نہیں کر رہا ہے، ویسے بھی اب مجھے ڈوبتے سورج کا منظر دلفریب نہیں لگتا-'
'کیوں بھلا...کبھی غروبِ آفتاب دیکھنا تو تمھارا دلچسپ مشغلہ ہوا کرتا تھا اب کیا ہو گیا؟'
'جب سے میں نے قسمت کے ساحل سے اپنی محبّت کو ڈوبتے دیکھا ہے مجھے ہر ڈوبتی چیز سے نفرت ہو گئ ہے، چاہے وہ ڈوبتا سورج ہو یا ڈوبتی ناؤ-'
'اب ایسے تو نہ کہو... تمنے ہی تو کبھی کہا تھا کہ قسمتیں ندیوں کی طرح ہوتی ہیں اور ہر ندی کی قسمت میں ساگر نہیں ہوتا-' اب اٹھ بھی جاؤ، ساحل پر صرف چہل قدمی کر کے چلے آئیں گے-
'نہیں...مجھ سے عشق میں ناکام عاشقوں کی حالت نہیں دیکھی جاتی-'
'اب ساحل پر کون مرگِ بسمل ہوا پڑا ہے؟'
'لہریں...جو ساحل سے محبّت کرتی ہیں مگر اسکی بےرخی سے گھائل ہو کر واپس پلٹ جاتی ہیں-' کبھی تم نے ان گھائل لہروں کی پُر درد آواز سنی ہے؟ ان ماتم کناں شور سے میرا دل بھٹّی بن جاتا ہے اور اب مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ میں ہجر کی آگ کے ساتھ ساتھ ناکامیِ محبّت کی آگ میں بھی جلوں-'
~
- نیّر امام / 05-10-2015

No comments:

Post a Comment