سب سے تکلیف دہ لمحہ وہ ہوتا ہے جب ہمارے خواب،
ہماری خواہشیں ہمارے سامنے ہی دم توڑ دیتی ہیں اور ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر
پاتے. ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں سمیٹتے سمیٹتے
ہاتھ اور نئے خواب
دیکھتے دیکھتے آنکھ، دونوں ہی مجروح
ہو چکے ہیں. شکشتہ دل اور مجروح وجود کے ساتھ بھلا کوئی کتنا اور کب تک
خواب دیکھے؟ مگر، یہ پاگل دل مجھے ہر پل ایک نئے محاز کی دہلیز پر لا پٹکتا ہے اور
میں خود کو کسی ٹوٹے ہوئے پتّے کی مانند ہوا کے آگوش میں دے دیتا ہوں.
بکھرے ہوئے وجود کو یکجا کرنا شاید دنیا کا سب
سے مشکل ترین کام ہے. آج مدّتوں بعد جب میں خود کو خود میں جوڑنے میں مشغول ہوں تو
یہ جانا کہ میں نے اپنے وجود کے نہ جانے کتنے حصّے کھو دیے ہیں. جس جسکو میں نے
اپنے وجود کا حصّہ بنایا تھا ان سبھی نے مجھے کسی ویران اور پرانی حویلی کی طرح
کھنڈہر میں تبدیل کر دیا ہے. اب میں چاہ کر بھی خستہ حال تعلق کو مضبوط نہیں بنا
سکتا. جس طرح کمزور ہو چکی اینٹوں پر لاکھ سیمنٹ کا گھول چڑھانے پر بھی وو مضبوط
نہیں بن سکتی ٹھیک اسی طرح لاتعلق اور مطلبی رشتے کو محبّت اور لگاوٹ کی چاشنی میں
ڈبو دینے پر بھی وہ کبھی آپکے وفادار نہیں ہو سکتے. اب کھو چکے وجود کے ٹکڑے کبھی
واپس تو آ نہیں سکتے پر ہاں، وو خالی حصّے
گزرے ہوئے لمحوں کا ثبوت بن میرے وجود سے پیوند کی طرح چپکے ضرور رہین گے اور
پیوند کے بکھیئے سے میرے وہ لمحات جھانکا کریں گے جو خوشی کے پل میں نے دوسروں کی
زندگیوں میں بوۓ تھے، اور شاید وہ سارے پل میری کھڑکی کے سامنے والے پرانے پیپل پر
نکل آۓ نئے کونپل کی طرح میری زندگی میں واپس آ جاییں اور میری زندگی پھر سے بہار
کا نمونہ بن جائے.
میں نے اپپنے بکھرے وجود کو بارہا صرف اس لئے
سینچا ہے کہ مجھے ایک دن فتح سے ہمکنار ہونا ہے. میں نے اپنے بکھرے وجود کو اسی
پیپل کے تناور تنے کے حوالے کیا ہے. اس درخت نے میرے سارے سکھ دکھ ساجھا کیا ہے. آج
جانے دل میں کیسی ہوک اٹھی تھی. میں صبح سے ہی کھڑکی پہ ہاتھ رکھے اسے تکا جا رہا
ہوں. ہاتھ میں کافی کا پیالہ ہے اور پیپل
کی شاخوں کے پیچھے سے نئی صبح کا سورج نمودار ہو رہا ہے اور شاید مجھ سے یہی کہنا
چاہ رہا ہے کہ آرزوئیں اور خواب کانچ کی طرح ہوتی ہیں جو ذرا سی ناکامی سے چٹک
جاتی ہیں مگر حوصلے چٹان کی طرح ہوتی ہیں جو ہر ناکامی کے بعد اور مضبوط ہوتی جاتی
ہے. دراصل ناکامی ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے. مجھے دیکھو میں ہر شام ڈوب کے
ہر صبح پھر سے نکلتا ہوں، مہینے کبھی ہار نہیں مانی اور تم اشرف المخلوقات ہوتے
ہوئے بھی ابھی سے ہار بیٹھے؟ بس ایک بار مضبوط ارادے سے ڈٹ جاؤ تو فتح بس دو قدم
پر تم سے ملاقات کر نے کو محو انتظار ہے.
~
- نیّر امام / ٠٩-٠٢-٢٠١٥ء.
No comments:
Post a Comment